تازہ ترین

اسلاموفوبیا نے فرانس کو خون میں رنگ دیا

یہ مسلسل پانچواں ہفتہ ہے کہ عوام سڑکوں پر ہیں،دکانیں تباہ ہو رہی ہیں پبلک پرائیویٹ ٹرانسپورٹ جل رہی ہے اور پولیس اور عوام کی مدبھیڑ جاری و ساری ہے۔دو قوانین جو ایمانول میکرون نے بنائے اور وہ فرانس کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کارگر ثابت ہوئے۔ایک تو پولیس والوں کی تصیویر خاکہ یا فلیکس شائع کرنا جرم قرار دینے کا قانون اور دوسرا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈائون کے حوالے سے نافذ کیا گیا کالا قانون اب میکرون کے ساتھ ساتھ فرانس کے وجود کے لیے بھی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔پچھلے کئی ہفتوں سے فرانسیسی عوام سڑکوں پر ہیں اور متنازع قانون واپس لینے کے لیے حکومت کے خلاف مظاہرئے کیے جا رہے ہیں جبکہ حکومت قانون واپس لینے کی بجائے عوام کو کنٹرول کرنے پر اپنی توانائی خرچ کرنے پر لگی ہوئی ہے۔اب زور بازو سے عوام کی بغاوت کو کچلنے سے پولیس اور عوام آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ لاٹھی چارج،آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہو چکے ہیں اور سینکڑوں مظاہرین کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہوا ہے۔ جبکہ مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں کی آگ لگا دی ہے سپر اسٹورز میں توڑ پھوڑ کرنے اور انہیں لوٹنے کے بعد آگ لگا دی گئی ہے۔اس کے علاوہ سرکاری املاک کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا ہے۔دن رات دنگے فساد اور شہروں کے امن کی صورت حال بدامنی کی تصویر بن چکی ہوئی ہے۔اب مظاہرین کے مظاہروں میں شدت آ چکی ہوئی ہے اور وہ حکومت سے متنازع قانون واپس لینے کے علاوہ ایمانول میکرون سے مستعفی ہونے کی ڈیمانڈ بھی کررہے ہیں۔ تاریخ لکھے گی کہ دین اسلام کو چوٹ کرنے والے ایمانول میکرون کا اپنا ملک ہی اس کے لیے عذاب بن گیا تھا۔کئی ہفتوں سے جاری اس احتجاج نے اب فساد کی صورت اختیار کر لی ہوئی ہے۔امن و عامہ کی صورت حال اس قدر دگرگوں ہے کہ لوگوں کے مال سمیت اب جانیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔پولیس عوام کی اور عوام پولیس کے دشمن بنے نظر آتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ فرانس کشیدگی کی اس صورت حال پر کب تک قابو پانے میں کامیاب ہوپاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Close
Close