پاکستان-یو اے ای کے درمیان 10 ارب ڈالر کی تجارت — بحالی کی نوید، مگر قیادت نجی شعبے کو سنبھالنی ہوگی

لاہور

پاکستان اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے درمیان معاشی تعلقات کی دھڑکن ایک بار پھر تیز ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025 میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت 10.1 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے — جو ایک اہم سنگِ میل اور طویل عرصے کی محدود سرگرمی کے بعد تجارتی تعاون کی نئی راہ ہموار ہونے کا اشارہ ہے۔

مگر اس مثبت خبر کے پس پردہ ایک پرانا مسئلہ برقرار ہے۔

پاکستان کی برآمدات اب بھی محض 2.1 ارب ڈالر کے آس پاس ہیں، جبکہ یو اے ای سے درآمدات 8 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ اس سال مجموعی تجارتی حجم میں 20.24 فیصد اضافہ ضرور ہوا، مگر یہ اضافہ بنیادی طور پر درآمدات کی بنیاد پر ہے — جس پر ماہرین اور صنعتکاروں نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے تجارتی توازن بہتر بنانے کے لیے حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

کمیشن کی بحالی، تعلقات کا نیا رخ

پاکستان-یو اے ای مشترکہ وزارتی کمیشن کا 12 واں اجلاس اسلام آباد میں 13 سال کے طویل وقفے کے بعد منعقد ہونا ایک اہم پیش رفت رہا۔ اجلاس میں تجارت، سرمایہ کاری، خوراکی تحفظ، توانائی، آئی ٹی، ہوا بازی اور افرادی قوت جیسے شعبوں پر جامع تبادلہ خیال ہوا۔

یہ کمیشن صرف سفارتی علامت نہیں، بلکہ ایک واضح پیغام تھا کہ دونوں ممالک معاشی شراکت داری کو نئے دور میں داخل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

نجی شعبہ: محروم موقع یا چھپی ہوئی دولت؟

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) کے پاکستان-یو اے ای بزنس کونسل کے چیئرمین دیوان فخرالدین کا ماننا ہے کہ اگر درست طبقات کو شامل کیا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات میں انقلاب آ سکتا ہے۔

"سرکاری افسران اور سفارت کاروں کے لیے ویزہ چھوٹ خوش آئند ہے، لیکن اصل سرمایہ کاروں، صنعتکاروں اور کاروباری افراد کے لیے بھی یہی سہولت ہونی چاہیے،” انہوں نے کہا۔ "کاروبار سے کاروبار کے تعلقات مضبوط ہوں گے تو معیشت بھی پائیدار بنیادوں پر ترقی کرے گی۔”

فخرالدین نے یہ بھی واضح کیا کہ یو اے ای دنیا میں شمسی توانائی اور قابلِ تجدید توانائی کے میدان میں نمایاں مقام رکھتا ہے، اور پاکستان کو اس سے سیکھ کر اپنے توانائی بحران کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

"اگر ہم یو اے ای کی ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کو اپنائیں، تو نہ صرف تیل پر انحصار کم ہوگا بلکہ ہمیں خلیجی ممالک سے ‘گرین سرمایہ کاری’ بھی حاصل ہو سکتی ہے۔”ترسیلات زر: ایک مالی سہارا، جسے مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے

More From Author

کراچی میں مینگرووز کی شجرکاری مہم زور پکڑنے لگی — نوجوانوں کی آواز بلند

پاکستان کی سی فوڈ برآمدات میں 13 فیصد اضافہ — مگر اصل چیلنج ابھی باقی ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے