اسلام آباد | جولائی 2025
پاکستان کی قومی ایئر لائن، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA)، ایک طویل غیر یقینی اور اصلاحات میں ناکامی کے بعد بالآخر ایک نئے سفر کے لیے تیار ہے۔ کئی برسوں کی بندش اور بحرانوں کے بعد، پی آئی اے نے برطانیہ کے لیے پروازیں 14 اگست سے دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے — یہ وہ پیش رفت ہے جو نہ صرف ایک نئے آغاز کی علامت ہے بلکہ نجکاری کے عمل کو بھی نئی سمت دے سکتی ہے۔
نجی سرمایہ کاری، بحالی اور نئے امکانات
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے انکشاف کیا کہ پی آئی اے کا نیا خریدار آئندہ پانچ برسوں میں 60 سے 70 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس سرمایہ کاری کا مقصد ایئرلائن کی مالی بحالی، آپریشنز میں بہتری اور موجودہ بیڑے کو دوگنا کرنا ہے۔
فی الوقت پی آئی اے کے پاس 19 فعال طیارے ہیں، جن کی اوسط عمر 18 سال سے زائد ہو چکی ہے — جو کہ ہوا بازی کی عالمی صنعت میں قابل تشویش امر ہے۔
باجوہ کے مطابق حتمی سرمایہ کاری کی ضرورت کا اندازہ جون 2025 کے اختتام تک کی آڈٹ شدہ مالی رپورٹس موصول ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ تاہم، ابتدائی تخمینوں کے مطابق یہ ہدف پچھلے ناکام نجکاری عمل میں مقرر کردہ 300 ملین ڈالر کے مقابلے میں کچھ کم ہو گا۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپ اور برطانیہ کے لیے بین الاقوامی راستوں کی بحالی متوقع آمدن میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتی ہے۔ مزید برآں، لیز پر لیے گئے طیاروں پر ٹیکس چھوٹ بھی ممکنہ خریدار کے لیے آپریٹنگ لاگت کو کم کرے گی۔
مانچسٹر سے واپسی — ایک علامتی سنگ میل
برطانوی ہوا بازی حکام کی جانب سے عائد کردہ پابندی کے بعد، پی آئی اے نے اب مانچسٹر کے لیے براہِ راست پروازیں بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پابندی اُس وقت لگائی گئی تھی جب سابق پی ٹی آئی حکومت نے انکشاف کیا تھا کہ کئی پائلٹس کی ڈگریاں جعلی تھیں — جس سے ایئرلائن کی ساکھ کو عالمی سطح پر شدید دھچکا پہنچا تھا۔
اب، حفاظتی ضوابط کی از سرِ نو ترتیب اور سفارتی رابطوں کی بحالی کے بعد، 14 اگست کی پرواز نہ صرف ایک فنی واپسی ہے بلکہ پی آئی اے کی عالمی ساکھ کی بحالی کی علامت بھی بن چکی ہے۔
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی کا کہنا تھا:
“یہ مرحلہ فیصلہ کن ہے۔ خریدار کو بولی کی 85 فیصد رقم خود ایئرلائن میں دوبارہ لگانی ہوگی، جبکہ حکومت صرف 15 فیصد وصول کرے گی — کیونکہ اصل کامیابی اس وقت ہو گی جب پی آئی اے ایک خود کفیل اور مسابقتی ادارہ بن جائے۔”
نجکاری کا دوسرا موقع — کیا اس بار کامیابی ممکن ہے؟
حکومت کا منصوبہ ہے کہ پی آئی اے میں 51 فیصد سے 100 فیصد حصص فروخت کیے جائیں — بشمول انتظامی کنٹرول۔ تاہم، یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں۔ پچھلے سال کی ناکام کوشش میں صرف 10 ارب روپے کی بولی موصول ہوئی، جبکہ کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی گئی تھی۔
لیکن اب حکام پُرامید ہیں۔ باجوہ کے مطابق حکومت نے پی آئی اے کے بیلنس شیٹ سے 45 ارب روپے کے قرضے نکال کر ایک الگ ہولڈنگ کمپنی میں منتقل کر دیے ہیں تاکہ ایئرلائن کو مالی طور پر پرکشش بنایا جا سکے۔ نیز، ہر سال حکومت کی جانب سے 100 ارب روپے کی سبسڈی دینا اب مزید ممکن نہیں رہا۔
“موجودہ بزنس ماڈل اب قابل عمل نہیں رہا،” باجوہ نے اعتراف کیا۔ “لیکن اس بار ہم نے حساب کتاب واضح کیا ہے، غیر ضروری اخراجات کم کیے ہیں، اور سرمایہ کاروں کو ایک صاف اور منظم موقع دیا جا رہا ہے۔”
نجکاری کے اگلے مراحل میں، پہلے سے منتخب کردہ کمپنیوں کی سائٹ وزٹس اور ماہر بریفنگز اگلے ہفتے شروع ہوں گی۔ ان سیشنز میں طیاروں کی حالت، فضائی راستوں، اور مستقبل کے منصوبوں پر تکنیکی بریفنگ دی جائے گی۔
حقیقت کا سامنا — منافع یا فقط حسابی چال؟
حکومت کی جانب سے گزشتہ برس 26 ارب روپے منافع ظاہر کیے جانے کا دعویٰ وزارت خزانہ نے مسترد کر دیا تھا۔ وزارت کے مطابق یہ صرف اکاؤنٹنگ کا ایک حربہ تھا جس میں پرانے خسارے کو مستقبل کے اثاثے قرار دیا گیا — جبکہ درحقیقت، پی آئی اے کو 4.6 ارب روپے کا خالص خسارہ ہوا تھا۔
یہ اکاؤنٹنگ چال حقیقت میں ادارے کی مالی صحت کی عکاسی نہیں کرتی، جس پر ماہرین نے شفافیت اور درست اعداد و شمار پر زور دیا ہے۔
پنشن، تاخیر اور دیگر مسائل
ایئرلائن کی مالی و فنی حالت کے علاوہ، کمیٹی میں ریٹائرڈ ملازمین کے پنشن مسائل پر بھی بحث ہوئی۔ 6,625 ریٹائرڈ ملازمین کے لیے واجب الادا پنشن کی رقم 14.9 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اگلے اجلاس میں گریڈ اور سکیل کے حساب سے پنشن تفصیل طلب کر لی۔
ادھر، زرعی ترقیاتی بینک (ZTBL) — جو نجکاری کی پہلی فہرست میں شامل ہے — وہاں مالیاتی مشیر کی تقرری میں غیرمعمولی تاخیر کا سامنا ہے۔ جنوری 2025 میں بولیاں دی گئی تھیں، لیکن ایک پارٹی کی 500 ملین روپے سے زائد فیس کے مطالبے کے باعث یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔
مزید برآں، پاکستان منرلز ڈیولپمنٹ کارپوریشن (PMDC) کو تاحال نجکاری فہرست میں شامل نہیں کیا گیا، جس پر سینیٹرز نے سوالات اٹھائے کہ پیٹرولیم ڈویژن کے پاس اس کی نجکاری کا آئینی اختیار ہی نہیں ہے۔
آگے کیا ہوگا؟
پی آئی اے کی یورپ واپسی یقیناً ایک نئی شروعات کی نوید ہے — لیکن یہ شروعات صرف اسی صورت کامیاب ہو سکتی ہے جب اسے دیانت، دور اندیشی اور شفافیت کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔
یہ ادارہ جو کبھی قومی وقار کی علامت تھا، برسوں سے بحرانوں اور بدانتظامی کا شکار رہا ہے۔ اب جبکہ بین الاقوامی راستے بحال ہو رہے ہیں اور نجی سرمایہ کاری کی راہیں کھل رہی ہیں، پی آئی اے کو ایک نئی بلندی پر لے جانے کا وقت آ چکا ہے۔
لیکن خواب دیکھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ کامیابی صرف اصلاحات، سنجیدہ قیادت اور خلوص نیت سے ہی ممکن ہو سکے گی — جو نہ صرف پی آئی اے بلکہ پاکستان کی معیشت کے لیے بھی ناگزیر ہے۔