ڈیجیٹل انقلاب کی سمت ایک جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان نے اپنی قومی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) پالیسی متعارف کرا دی ہے، جس کا ہدف آئندہ پانچ برسوں میں 2.7 ارب ڈالر مالیت کی مقامی اے آئی انڈسٹری قائم کرنا ہے۔
یہ جامع پالیسی چھ بنیادی ستونوں پر مبنی ہے — جدت، مہارتوں کی ترقی، محفوظ اور اخلاقی استعمال، شعبہ جاتی تبدیلی، بنیادی ڈھانچہ اور بین الاقوامی تعاون۔ اس منصوبے سے حکومت کا مقصد واضح ہے: پاکستان کو خطے میں ایک ذمہ دار اور مستحکم اے آئی مرکز کے طور پر ابھارنا۔
محفوظ اور اخلاقی اے آئی نظام کی تشکیل
پالیسی کا سب سے اہم پہلو ڈیٹا سیکیورٹی اور اخلاقی گورننس پر زور دینا ہے۔ حکومت مختلف اداروں میں مشترکہ اے آئی سائبر سیکیورٹی نظام متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ اہم ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو محفوظ رکھا جا سکے۔
اسی مقصد کے لیے ایک اے آئی ڈائریکٹوریٹ اور اخلاقی بورڈ قائم کیا جائے گا جو نجی اور سرکاری دونوں سطحوں پر شفافیت، انسانی نگرانی، اور جوابدہی کو یقینی بنائے گا۔
عوامی اعتماد کے لیے ایک پبلک رجسٹر آف اے آئی سسٹمز بنایا جائے گا، جس سے شہری یہ دیکھ سکیں گے کہ ملک میں کہاں اور کس طرح اے آئی استعمال ہو رہی ہے۔ اسی کے ساتھ ایک اوپن سورس گورننس فریم ورک بھی ترتیب دیا جائے گا جو بین الاقوامی ڈیٹا پروٹیکشن معیارات کے مطابق ہوگا۔
پالیسی میں ایک جامع نیشنل ڈیٹا سیکیورٹی پالیسی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ موجودہ کمزوریوں کو دور کیا جا سکے اور ملک کا ڈیجیٹل تحفظ مضبوط بنایا جا سکے۔
روزگار کے مواقع اور انسانی وسائل کی ترقی
پالیسی کا سب سے پرامید پہلو یہ ہے کہ یہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر روزگار اور تعلیمی مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومت ہر سال دو لاکھ افراد کو اے آئی اور جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دینے کا ہدف رکھتی ہے، جبکہ 3,000 پوسٹ گریجویٹ اسکالرشپس اور 15,000 بغیر سود تعلیمی قرضے بھی دیے جائیں گے تاکہ طلبہ جدید تعلیم حاصل کر سکیں۔
خواتین اور خصوصی افراد کے لیے خصوصی تربیتی ماڈیولز متعارف کرائے جائیں گے، جبکہ قومی سطح پر ایک ہائی ٹیک انٹرن شپ پروگرام کے تحت 20,000 نوجوانوں کو سالانہ مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
یہاں تک کہ سرکاری افسران کو بھی اخلاقی اے آئی کے استعمال اور ڈیٹا کے تحفظ کے حوالے سے خصوصی تربیت دی جائے گی تاکہ سرکاری نظام بھی جدید خطوط پر استوار ہو۔
جدت اور تحقیق کو فروغ
پالیسی کے تحت نیشنل اے آئی فنڈ (NAIF) قائم کیا جائے گا جو اگنائٹ نیشنل ٹیکنالوجی فنڈ کے ذریعے چلایا جائے گا۔ تحقیق و ترقی (R&D) کے لیے مختص بجٹ کا 30 فیصد حصہ اے آئی سے متعلق جدت، تحقیق اور کمرشلائزیشن پر خرچ کیا جائے گا۔
اس فنڈ کے ذریعے ملک کے بڑے شہروں میں سینٹرز آف ایکسیلینس (CoEs) قائم کیے جائیں گے جو تحقیق، تربیت اور اسٹارٹ اپس کی معاونت کے مراکز کے طور پر کام کریں گے۔
ان مراکز کے اندر ایک انوویشن فنڈ قائم کیا جائے گا جو صحت، تعلیم اور زراعت جیسے شعبوں کے مسائل کے حل پر کام کرے گا، جبکہ ایک وینچر فنڈ نئی اے آئی کمپنیوں کو مالی مدد فراہم کرے گا تاکہ وہ ترقی کر سکیں۔
اہم شعبوں میں تبدیلی
پالیسی کے مطابق مستقبل میں تعلیم، صحت، زراعت اور توانائی کے شعبے مصنوعی ذہانت کے ذریعے جدید خطوط پر استوار کیے جائیں گے۔ جو کمپنیاں اے آئی ٹیکنالوجی اپنائیں گی، انہیں ٹیکس میں رعایت، سبسڈی اور تربیتی پروگرامز کی سہولت دی جائے گی تاکہ وہ زیادہ مؤثر انداز میں کام کر سکیں۔
ایک نیا "رینکنگ مینجمنٹ سسٹم” بھی متعارف کرایا جائے گا جو اداروں اور افراد کو درست اے آئی ٹولز کے انتخاب میں رہنمائی فراہم کرے گا۔
زراعت کے شعبے میں، مصنوعی ذہانت کسانوں کو پیداوار میں بہتری اور فصلوں کے ضیاع میں کمی میں مدد دے گی جس سے زرعی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ پہنچنے کی امید ہے۔
مضبوط بنیادی ڈھانچہ
ان اہداف کے حصول کے لیے حکومت ملک گیر اے آئی کمپیوٹنگ نیٹ ورک قائم کرے گی تاکہ 100 یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو جدید کمپیوٹنگ سہولیات اور بڑے ڈیٹا سیٹس تک رسائی حاصل ہو۔
اسی کے ساتھ پبلک سیکٹر ڈیٹا سینٹرز کو اپ گریڈ کیا جائے گا اور کلاؤڈ بیسڈ سروسز کو فروغ دیا جائے گا تاکہ اے آئی ڈویلپمنٹ چھوٹی کمپنیوں اور اسٹارٹ اپس کے لیے زیادہ آسان اور کم لاگت ہو۔
عالمی تعاون اور سرمایہ کاری
پالیسی میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کو دنیا کی بڑی اے آئی طاقتوں خصوصاً امریکا — کے ساتھ دوطرفہ تعاون بڑھانا چاہیے تاکہ علم، تحقیق، اور جدید ٹیکنالوجی کا تبادلہ ممکن ہو۔
پاکستان اپنی اے آئی ریگولیشنز کو بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کرے گا تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو فروغ دیا جا سکے اور ملک کو ایک قابلِ اعتماد عالمی ٹیکنالوجی پارٹنر کے طور پر پیش کیا جا سکے۔
اسی طرح طلبہ اور ماہرین کے لیے بین الاقوامی تبادلہ پروگرامز شروع کیے جائیں گے تاکہ وہ عالمی سطح پر تربیت حاصل کریں اور اپنی مہارت وطن واپس لا کر مقامی صنعت کو مضبوط بنائیں۔