کراچی: کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے حالیہ تنازع پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھاری ای چالانز کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال ایک ’’غلط فہمی‘‘ تھی اور یہ قرارداد دراصل منظور ہی نہیں ہوئی۔
اتوار کی شب جاری ہونے والے اعلامیے میں کے ایم سی حکام نے وضاحت کی کہ ایک معمولی انتظامی غلطی کے باعث ایسا تاثر پیدا ہوا جیسے قرارداد کو باقاعدہ منظوری مل گئی ہو۔ حکام کے مطابق یہ قرارداد ضروری بحث اور طریقہ کار مکمل کیے بغیر سائن ہوگئی، اس لیے اسے باضابطہ طور پر درست یا نافذ شدہ نہیں سمجھا جا سکتا۔
کے ایم سی کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ آئندہ کونسل اجلاس میں دوبارہ پیش کیا جائے گا، جہاں اس پر باقاعدہ بحث کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
اپوزیشن کا مؤقف
اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ نے کے ایم سی کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد 31 اکتوبر کو باقاعدہ پیش کی گئی تھی، جس پر جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اظہارِ خیال بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس ڈپٹی میئر سلمان عبداللہ مراد کی زیر صدارت ہوا اور تمام اراکین نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی۔ ’’یہ کہنا کہ دستخط غلطی سے ہوگئے، بالکل بے مثال بات ہے،‘‘ اپوزیشن لیڈر کے ترجمان نے کہا۔ ’’اگر میئر واقعی کراچی کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں تو انہیں صوبائی حکومت کے بجائے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘
متنازع قرارداد میں سندھ حکومت سے بھاری ای چالانز کے نوٹیفکیشن کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور کراچی کی خستہ حال سڑکوں، ٹوٹے بورڈز اور خراب نظام پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔
ڈیجیٹل نظام یا دوہرا معیار؟
یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے حال ہی میں ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (TRACS) کا افتتاح کیا ہے — جو کہ سندھ میں ٹریفک نظام کو مکمل طور پر ڈیجیٹل بنانے کا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ نظام اے آئی سے مربوط سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے اوور اسپیڈنگ، ریڈ لائٹ کراسنگ، اور ہیلمٹ کے بغیر سفر جیسے خلاف ورزیوں کو خودکار طور پر شناخت کرتا ہے۔ اس کے تحت انسانی مداخلت کم ہوگی اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔
ٹریکس سہولت مراکز شہر کے مختلف ٹریفک دفاتر اور تھانوں میں قائم کیے گئے ہیں، جہاں شہری اپنے چالان جمع کروا سکتے ہیں، وضاحت طلب کر سکتے ہیں یا اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ موبائل ایپ کے ذریعے بھی شہری فوری طور پر چالان چیک اور ادا کر سکتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں 200 کیمرے کراچی بھر میں نصب کیے گئے ہیں، جنہیں مرحلہ وار بڑھا کر 12 ہزار تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔ یہ نظام ایکسائز و ٹیکسیشن، ڈرائیونگ لائسنس سسٹم اور نادرا ای سہولت سے بھی منسلک ہے تاکہ تمام معلومات خودکار طریقے سے تصدیق کی جا سکیں۔
غلطیاں اور عوامی غصہ
اگرچہ حکومت اسے شفاف نظام قرار دے رہی ہے، لیکن شہریوں کی جانب سے اس پر تنقید میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ متعدد شہریوں نے غلط ای چالانز موصول ہونے کی شکایات کی ہیں۔
ایک متاثرہ شہری نے بتایا کہ انہیں بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے پر 2500 روپے کا چالان موصول ہوا — حالانکہ وہ اس وقت گھر پر تھے۔ ’’چالان پر جو نمبر پلیٹ تصویر میں نظر آ رہی ہے وہ تحریری نمبر سے مختلف ہے،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’اگر یہ ڈیجیٹل غلطیاں جاری رہیں تو عام لوگ کہاں جائیں؟‘‘
اعداد و شمار کے مطابق، نظام کے آغاز کے صرف تین دنوں میں 12,900 سے زائد ای چالانز جاری کیے گئے۔
عوامی دباؤ کے بعد، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے احکامات دیے کہ شہریوں کا پہلا ای چالان ’’نیک نیتی کے طور پر‘‘ معاف کیا جائے، تاہم بار بار خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
دوسری جانب، جماعت اسلامی کے رکنِ سندھ اسمبلی محمد فاروق نے اسمبلی میں قرارداد جمع کرواتے ہوئے ای چالان پالیسی کے فوری جائزے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’کراچی کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، سائن بورڈ غائب ہیں، مگر شہریوں کو سزا دی جا رہی ہے۔‘‘
اسی دوران مرکزی مسلم لیگ نے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی، جس میں ای چالان سسٹم کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ شہریوں کو جرمانے ادا نہ کرنے پر شناختی کارڈ بلاک کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
درخواست میں سوال اٹھایا گیا کہ کراچی میں جرمانہ 5000 روپے کیوں ہے جبکہ لاہور میں یہی خلاف ورزی صرف 200 روپے پر نمٹائی جاتی ہے؟
’’شہر کی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں، ایسے حالات میں بھاری جرمانے عوام پر ظلم کے مترادف ہیں،‘‘ درخواست میں کہا گیا۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ معاملے کی فوری سماعت کی جائے۔