سفارتی تعلقات کی بحالی کی نوید: اسحاق ڈار کی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے اہم ملاقات طے

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نئے موڑ کی امید پیدا ہو گئی ہے، کیونکہ پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار 25 جولائی کو واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔ اس ملاقات سے قبل وہ نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ سطحی نشستوں میں شرکت کریں گے، جہاں پاکستان اس وقت سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالے ہوئے ہے۔

یہ ملاقات دو طرفہ سطح پر 2016 کے بعد پہلی مرتبہ ہو رہی ہے، جو ایک طویل خاموشی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نئی شروعات کی علامت سمجھی جا رہی ہے۔ اس خاموشی کا خاتمہ اس وقت ہوا جب کچھ عرصہ قبل امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں ایک غیر معمولی دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا—ایسا واقعہ جو پاکستان کے لیے نہایت اہم سفارتی اشارہ تھا۔

ڈار اور روبیو کی اس مجوزہ ملاقات پر نہ صرف اسلام آباد بلکہ واشنگٹن میں بھی گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ ماہرین اسے محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ سفارتی ری سیٹ کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔


نیویارک میں مصروف سفارتی شیڈول

واشنگٹن روانگی سے قبل اسحاق ڈار اتوار کی دوپہر نیویارک پہنچیں گے، جہاں وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت مختلف اہم اجلاسوں کی صدارت کریں گے۔ ان میں ایک کھلا مباحثہ شامل ہے جس کا موضوع ہے: "کثیرالجہتی تعاون اور پُرامن تنازعات کے حل کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینا۔”

وہ مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال، بالخصوص فلسطین کے مسئلے پر ہونے والے سہ ماہی اجلاس کی بھی صدارت کریں گے، اور اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے مابین تعاون کو فروغ دینے پر ایک اعلیٰ سطحی بریفنگ کی قیادت کریں گے۔

ان کا ایک اور اہم مشن فلسطینی تنازعے کے پرامن حل اور دو ریاستی حل پر عملدرآمد سے متعلق کانفرنس میں شرکت ہے۔ غزہ کی موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں اس اجلاس کو عالمی سطح پر خاص توجہ حاصل ہے، اور اسحاق ڈار کی شرکت کو ایک مضبوط سفارتی پیغام سمجھا جا رہا ہے۔


واشنگٹن ملاقات: رسمی نہیں، علامتی بھی نہیں

تاہم ان تمام سرگرمیوں کے باوجود سب سے زیادہ توجہ ڈار اور روبیو کی ملاقات کو حاصل ہے، جو ایک نئے اسٹریٹجک رابطے کا آغاز ہو سکتی ہے۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب دونوں ممالک خطے میں بدلتے ہوئے حالات، اقتصادی دباؤ اور سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر پاکستان اور امریکہ اپنے تعلقات کو دوبارہ مستحکم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تو اس کے اثرات صرف دو طرفہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

سفارتی ذرائع کے مطابق، اس ملاقات میں محض روایتی سیکیورٹی امور ہی نہیں بلکہ تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، اور عالمی سفارت کاری میں اشتراک جیسے موضوعات پر بھی گفتگو متوقع ہے۔


معیشت کے میدان میں متوازی پیش رفت

ڈار کے دورے سے قبل پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بھی واشنگٹن میں اہم ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ انہوں نے امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک اور امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریر سے ملاقات کی، جہاں تجارتی و کسٹم معاہدے پر تبادلہ خیال ہوا۔

ان ملاقاتوں کو اورنگزیب نے “انتہائی مثبت اور تعمیری” قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو صرف فوری تجارتی مفادات سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے۔

“ہمیں وقتی تجارتی مفادات سے آگے نکل کر مستقبل کی سرمایہ کاری پر توجہ دینی ہوگی،” انہوں نے کہا۔
“پاکستان-امریکہ تعلقات کو اگلے مرحلے پر لے جانے کے لیے سرمایہ کاری کلیدی ہے—اور ہمیں یقین ہے کہ معدنیات، مصنوعی ذہانت (AI)، اور کرپٹو جیسے شعبے گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔”

اورنگزیب ہفتے کے روز پاکستان واپس روانہ ہو گئے، لیکن اپنے پیچھے ایک نئی امید کی فضا چھوڑ گئے—ایسی فضا جس میں اقتصادی سفارت کاری کا نیا باب رقم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔


اب سوال یہ ہے: آگے کیا ہوگا؟

اگرچہ اس وقت مکمل طور پر یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، مگر ابتدائی اشارے واضح ہیں: واشنگٹن نے دروازہ کھولا ہے، اور اسلام آباد نے قدم بڑھا دیا ہے—احتیاط سے، لیکن اعتماد کے ساتھ۔

ڈار-روبیو ملاقات ایک ایسے اسٹریٹجک مکالمے کی بنیاد رکھ سکتی ہے جو ماضی کے بوجھ سے آزاد ہو کر مستقبل کے چیلنجز—ماحولیاتی تبدیلی، ٹیکنالوجی، تجارت، اور عالمی امن—پر مرکوز ہو۔

اور شاید، اس بار دونوں ممالک اپنے پیچیدہ ماضی سے سبق سیکھ کر، ایک سنجیدہ شراکت داری کی راہ اپنا لیں—بجائے اس کے کہ ایک بار پھر وقت کے دھارے میں بہہ جائیں۔

 

More From Author

غزہ لہو لہو: امداد کے انتظار میں موت، بھوک کی گرفت میں بستی

نادرا کا کراچی میں 24/7 رجسٹریشن مراکز کا آغاز — شناختی نظام میں بڑی اصلاحات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے