بلوچستان میں ’غیرت‘ کے نام پر جوڑے کے قتل کے بعد 11 افراد گرفتار

بلوچستان میں حکام نے کم از کم 11 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے، یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا پر ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک مرد اور عورت کو ان کے خاندانوں کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر قتل کیا گیا۔

صوبائی حکام کے مطابق یہ واقعہ گزشتہ ماہ پیش آیا جب ایک مقامی قبائلی جرگے نے اس جوڑے کے قتل کا حکم دیا۔ ویڈیو کے سوشل میڈیا پر آنے کے بعد عوامی غم و غصے نے حکومت کو فوری کارروائی پر مجبور کر دیا۔

بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے پیر کے روز اپنے بیان میں کہا کہ قتل میں ملوث تمام افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ’’تمام مشتبہ ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا،‘‘ انہوں نے کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکام نے ویڈیو میں نظر آنے والے افراد اور مقام کی نشاندہی کر لی ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صحرا میں کھڑی خاتون، جو چادر میں لپٹی ہوئی ہے، کو قرآن پاک دیا جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے ساتھ کھڑے مرد سے کہتی ہے، ’’میرے ساتھ سات قدم چلو، اس کے بعد مجھے گولی مار دینا۔‘‘

مقامی پولیس اہلکار کے مطابق، اس دوران خاتون نے زندگی کی بھیک نہیں مانگی بلکہ براہوی زبان میں کہا، ’’تمہیں صرف مجھے گولی مارنے کی اجازت ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘ اس جملے کا مکمل مطلب واضح نہیں ہو سکا۔

ویڈیو میں دیکھا گیا کہ خاتون چند قدم چلتی ہے، اس کے پیچھے مرد آتا ہے اور قریب سے اس پر پستول تان کر فائر کر دیتا ہے۔ پہلی دو گولیوں کے بعد بھی وہ کھڑی رہتی ہے جبکہ تیسری گولی لگنے پر زمین پر گر جاتی ہے۔ اس کے بعد ویڈیو میں خون میں لت پت مرد کو خاتون کی لاش کے قریب دیکھا جا سکتا ہے، پھر مسلح افراد دونوں لاشوں پر مزید گولیاں چلاتے ہیں۔

رائٹرز اس ویڈیو کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے ان ہولناک ہلاکتوں کی مذمت کی اور بتایا کہ صرف 2024 میں ملک بھر میں کم از کم 405 غیرت کے نام پر قتل ہوئے۔ انسانی حقوق تنظیموں کے مطابق، ان واقعات کی زیادہ تر متاثرین خواتین ہوتی ہیں جنہیں خاندان کی ’عزت‘ کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

سیاسی رہنماؤں نے بھی اس بربریت کی مذمت کی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملزمان کو ’’درندے‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی قسم کی رعایت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے یقین ہے کہ اس قتل میں ملوث مجرموں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ واقعہ بلوچستان حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہونا چاہیے کیونکہ یہ صنفی دہشت گردی ہے۔‘‘

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی اس ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے بلوچستان کے عوام سے کہا کہ وہ اس ظالمانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’’جو لوگ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے بیٹھے ہیں، وہ پہلے اپنے اردگرد کے اس ظالمانہ نظام کے خلاف آواز بلند کریں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’اس ظلم کے ذمے دار تمہارے اپنے بھائی ہیں، نہ کہ دوسرے صوبوں سے آنے والے مسافر اور مزدور۔‘‘ ان کا کہنا تھا، ’’اس جوڑے کو بے دردی سے قتل کر کے نہ صرف قانون اور انصاف کی تضحیک کی گئی بلکہ صوبائی حکومت کی رٹ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ جرگوں کے نام پر جاری ظلم اور بربریت کا باب اب بند ہونا چاہیے

More From Author

اسحاق ڈار اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اہم اجلاسوں کی قیادت کیلئے نیویارک پہنچ گئے

غزہ لہو لہو: امداد کے انتظار میں موت، بھوک کی گرفت میں بستی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے