پاکستان میں آمدنی کی عدم مساوات خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بین الاقوامی تنظیم آکسفیم کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، ملک کی 10 فیصد امیر ترین آبادی اب قومی دولت کے 42 فیصد حصے پر قابض ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ اعداد و شمار ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں جو تیزی سے طبقاتی تفریق اور مراعات یافتہ طبقے کے غلبے کا شکار ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ برسوں سے چلی آ رہی پالیسیوں نے اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا، جب کہ غیر منصفانہ ٹیکس نظام اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات جو سب سے زیادہ غریب طبقے کو متاثر کرتے ہیں اس خلیج کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ پاکستان میں تعلیم پر کم سرمایہ کاری اور کمزور ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ ماہرین معیشت خبردار کرتے ہیں کہ اگر حالات یوں ہی رہے تو ملک کو بڑھتے ہوئے سماجی انتشار اور طویل المدتی معاشی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایشیا بھر میں ارب پتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ کم آمدنی والے شہریوں کا آمدنی میں حصہ مسلسل گھٹتا جا رہا ہے۔ آکسفیم کے مطابق، یہ رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جا رہی ہے، جب کہ کروڑوں عام شہری مہنگائی، بے روزگاری اور محدود مواقع کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔
آکسفیم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کرے تاکہ امیر افراد اور بڑی کارپوریشنز اپنی آمدنی کے مطابق مناسب حصہ ادا کریں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعلیم، صحت اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ سرمایہ کاری ضروری ہے، تاکہ مساوات پر مبنی معیشت تشکیل دی جا سکے اور عام پاکستانیوں کے معیارِ زندگی میں بہتری لائی جا سکے۔
تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت اور مؤثر اصلاحات نہ کی گئیں تو امیر اور غریب کے درمیان خلیج مزید بڑھتی جائے گی۔ آکسفیم کے مطابق، ایک منصفانہ اور جامع معاشی نظام کی تشکیل ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہر پاکستانی کو ترقی اور خوشحالی کا برابر موقع دیا جا سکتا ہے۔