پاکستان کی جانب سے ترکیہ کو کراچی میں ایک ہزار ایکڑ زمین برآمدی زون کے لیے پیش

کراچی: پاکستان نے ترکیہ کو کراچی میں ایک ہزار ایکڑ زمین بلا معاوضہ دینے کی پیشکش کی ہے تاکہ ایک خصوصی برآمدی زون (ایکسپورٹ پروسیسنگ زون) قائم کیا جا سکے۔ اس اقدام کا مقصد صنعتی تعاون کو فروغ دینا اور دو طرفہ تجارت کو نئی سطح تک لے جانا ہے۔

یہ تجویز وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپریل میں ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کے دوران پیش کی تھی۔ اس پیشکش کو اسلام آباد کی اس حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے جس کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد نے استنبول اور انقرہ کا دورہ کیا، جس میں وزارتِ خارجہ، اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC)، بورڈ آف انویسٹمنٹ (BoI) اور سندھ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی کے نمائندے شامل تھے۔ وفد نے ترکیہ کے برآمدی زونز کا جائزہ لیا، جو خطے کے کامیاب ترین ماڈلز میں شمار ہوتے ہیں۔

ترکیہ میں یہ زونز ابتدا میں سرکاری سطح پر قائم کیے گئے تھے، تاہم 1995 کے بعد سے ان کی ترقی اور انتظام نجی شعبے کے سپرد کر دیا گیا ہے جبکہ حکومت صرف ریگولیٹری کردار ادا کرتی ہے۔ ان زونز میں سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جن میں 20 سالہ ٹیکس چھوٹ، کم لاگت پر زمین کی فراہمی اور بجلی، پانی و گیس کی بلا تعطل فراہمی شامل ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ کراچی میں قائم ہونے والا زون انہی خطوط پر ترتیب دیا جائے گا۔

ایک سینئر اہلکار نے کہا: “کراچی انڈسٹریل پارک بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔ اس کی مضبوط انفراسٹرکچر اور مشرقِ وسطیٰ و وسطی ایشیا کی منڈیوں سے قربت ترک کمپنیوں کے لیے غیر معمولی مواقع فراہم کرتی ہے۔ اگر وہ یہاں منتقل ہوں تو ان کے مال برآمد کرنے کے اخراجات فی ٹن چار ہزار ڈالر سے کم ہو کر صرف ایک ہزار ڈالر رہ جائیں گے۔”

یہ منصوبہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان ترجیحی تجارتی معاہدے کو وسعت دینے اور خلیجی تعاون کونسل (GCC) ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے امکانات سے بھی جڑا ہوا ہے، جو پاکستانی برآمدات اور سرمایہ کاری کے لیے نئے راستے کھول سکتا ہے۔

حکام کے مطابق کراچی میں مجوزہ برآمدی زون ملک کے لیے ایک "گیم چینجر” ثابت ہو سکتا ہے، جہاں ترک صنعت کاروں کو سرمایہ کار دوست ماحول، کم لاگت پیداوار اور خطے کی بڑی منڈیوں تک فوری رسائی حاصل ہوگی۔ اس سے نہ صرف نئی صنعتوں کا قیام اور ٹیکنالوجی کی منتقلی ممکن ہوگی بلکہ پاکستان کی برآمدی بنیاد بھی مستحکم ہو گی اور انقرہ کے ساتھ تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔

More From Author

کے ایم سی کا وعدہ: بارش سے متاثرہ 106 سڑکیں 60 دن میں بحال کی جائیں گی، مرتضیٰ وہاب

کراچی میں زیر تعمیر عمارت کے گڑھے میں بارش کا پانی جمع، دو بچے ڈوب کر جاں بحق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے