پاکستان کی افغانستان کو مشترکہ انسداد دہشتگردی کارروائیوں کی پیشکش

اسلام آباد: پاکستان نے افغان عبوری حکومت کو دہشتگرد گروپوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کرنے کی پیشکش کی ہے جو خطے میں عدم استحکام اور بدامنی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ پیشکش وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اتوار کے روز کابل کے دورے کے دوران طالبان حکام سے اہم ملاقاتوں میں کی۔

محسن نقوی حالیہ دنوں میں افغانستان کا دورہ کرنے والے پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدیداروں میں شامل ہیں۔ ان کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے اور سرحد پار شدت پسندی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں۔ اس سے قبل اسی ماہ کے آغاز میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی کابل کا دورہ کر چکے ہیں۔

وزیر داخلہ کے ہمراہ افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے سفیر محمد صادق خان اور سیکرٹری داخلہ خرم آغا بھی تھے۔ کابل میں ان کی افغان عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات ہوئی جس میں انسداد دہشتگردی، سرحدی سکیورٹی، اور افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملات زیر غور آئے۔ پاکستانی وفد نے خاص طور پر اس تشویش کا اظہار کیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر پاکستان مخالف گروہ افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔

وزارت داخلہ کے مطابق نقوی نے افغان حکام کو واضح پیغام دیا کہ “پاکستان افغانستان کو برادر پڑوسی ملک سمجھتا ہے لیکن دہشتگرد گروپوں کی سرگرمیاں ہمارے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔” انہوں نے زور دیا کہ “دہشتگرد تنظیمیں بدامنی اور عدم استحکام پیدا کر رہی ہیں، ان کا مل کر خاتمہ ضروری ہے۔”

دونوں ملکوں نے دو طرفہ تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے سرحدی دراندازی روکنے، بارڈر مینجمنٹ بہتر بنانے، منشیات کی اسمگلنگ کے تدارک اور قانونی طریقے سے آمد و رفت کے نظام کو موثر بنانے پر اتفاق کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی واپسی کا معاملہ بھی بات چیت کا حصہ رہا۔

ملاقات میں دونوں وزرائے داخلہ نے خطے میں امن، استحکام اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ نقوی نے کہا کہ “پاکستان افغانستان کے ساتھ بھائی چارے پر مبنی دیرپا تعلقات چاہتا ہے۔ دہائیوں تک پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو بے لوث پناہ دی ہے اور آج بھی افغان شہری قانونی طریقے سے پاکستان آ سکتے ہیں۔”

حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ رہے تاہم ایک بار پھر سفارتی رابطوں میں تیزی آئی ہے۔ اسحاق ڈار کے دورہ کابل کے بعد افغان حکام نے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں پر کچھ حد تک قدغنیں لگائیں اور ان افغان باشندوں کے خلاف کارروائیاں کیں جو اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر رہے تھے۔ ان اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضا بحال ہونے لگی ہے۔

تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کو اپنی سرزمین سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے مزید سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ آئندہ دنوں میں اعلیٰ سطحی رابطے جاری رہیں گے اور توقع ہے کہ افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی جلد اسلام آباد کا دورہ کریں گے تاکہ دوطرفہ تعلقات کو مزید آگے بڑھایا جا سکے۔

More From Author

یورپی یونین کی روس پر پابندیوں کا 18واں مرحلہ: تیل، شیڈو فلیٹ اور نارد اسٹریم ہدف پر

غزہ کا معاملہ اگلے ہفتے ڈار کے اقوام متحدہ کے دورے میں سرفہرست رہے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے