پاکستان اور عرب اسلامی ممالک کا استنبول کانفرنس میں اسرائیل سے انخلا اور غزہ کی تعمیر نو کا مطالبہ

اسلام آباد — پاکستان سمیت کئی عرب و اسلامی ممالک نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے فوری انخلا اور محصور فلسطینیوں کے لیے ہنگامی انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مشترکہ اعلان پیر کے روز استنبول میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد سامنے آیا، جس میں مصر، انڈونیشیا، اردن، پاکستان، قطر، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ "غزہ امن منصوبے” پر غور کیا گیا اور مسلم ممالک کے مشترکہ لائحۂ عمل پر بات چیت ہوئی۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق، وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی، جہاں شریک رہنماؤں نے غزہ میں پائیدار جنگ بندی اور دیرپا امن کے لیے ممکنہ اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا۔

وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ "رہنماؤں نے فلسطینیوں کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا، اسرائیلی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی، مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی انخلا کا مطالبہ کیا اور غزہ کی تعمیر نو کی اہمیت کو اجاگر کیا۔”

پاکستان نے ایک بار پھر اپنے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا کہ وہ 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی، القدس الشریف کو دارالحکومت رکھنے والی آزاد، خودمختار اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے، جیسا کہ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں میں واضح کیا گیا ہے۔

ترک وزیرِ خارجہ حاقان فدان نے اجلاس کے بعد کہا کہ اسرائیل کو جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں بند کرنی چاہئیں اور غزہ میں انسانی امداد تک غیر مشروط رسائی یقینی بنانی چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ کے بعد غزہ کے معاملات اور سلامتی کی ذمہ داری فلسطینیوں کو خود سنبھالنی چاہیے۔

فدان کے مطابق، شریک ممالک اقوامِ متحدہ کے ممکنہ استحکام فورس کے قیام پر بھی غور کر رہے ہیں، جو جنگ بندی کے انتظامات کا حصہ ہو سکتی ہے۔ تاہم، ہر ملک اس فورس میں اپنی شمولیت کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کے باضابطہ مینڈیٹ کے بعد کرے گا۔

یہ اجلاس اس وقت منعقد ہوا جب غزہ میں کشیدگی دوبارہ بڑھ گئی ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق 10 اکتوبر کو جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے 236 افراد اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے تین فوجی مارے گئے ہیں اور اس کے حملے حماس کے ٹھکانوں پر کیے جا رہے ہیں۔

امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی نے دو سال سے جاری جنگ کو روک دیا تھا، جس میں 67 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔ اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی فوجی کارروائیوں نے غزہ کو کھنڈر بنا دیا، جہاں اسکول، اسپتال اور دیگر شہری عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، اور انسانی بحران اپنی سنگین ترین شکل اختیار کر چکا ہے۔

More From Author

بینک الفلاح کی جانب سے سیلاب متاثرہ کمیونٹیز کی بحالی کے لیے مزید 1.4 ارب روپے کا اعلان

فوجی سیمنٹ اور کیپکو کی اٹک سیمنٹ میں 84 فیصد حصص کے حصول کی تیاری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے