پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن طالبان کی سرحد پار حملوں کو روکنے کی صلاحیت پر منحصر ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف

اسلام آباد – وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حال ہی میں ہونے والا جنگ بندی معاہدہ اُس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک افغان طالبان اپنی سرزمین سے ہونے والے سرحد پار دہشت گرد حملوں کو مؤثر طور پر روکنے میں کامیاب رہیں گے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے واضح کیا کہ پاکستان کا امن کے لیے عزم ’’مکمل طور پر طالبان کی اس صلاحیت پر منحصر ہے‘‘ کہ وہ اپنی زمین کو دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’افغانستان کی جانب سے کسی بھی قسم کی دراندازی اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘

یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا، جو 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہونے والی بدترین سرحدی جھڑپوں کے بعد ممکن ہوا۔ ان جھڑپوں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

وزیر دفاع کے مطابق یہ معاہدہ پاکستان، افغانستان، ترکیہ اور قطر کے درمیان ہوا، جبکہ ترکیہ اور قطر نے بطور ضامن اس پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا، ’’اس معاہدے میں واضح طور پر درج ہے کہ کسی بھی جانب سے دراندازی نہیں ہوگی۔ جب تک یہ شق برقرار ہے، جنگ بندی برقرار رہے گی۔‘‘

انہوں نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) پر الزام عائد کیا کہ وہ ’’افغان طالبان کی سرپرستی میں‘‘ افغان سرزمین سے کارروائیاں کر رہی ہے تاہم کابل نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

الجزیرہ عربی کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ دوحہ معاہدے کا سب سے اہم مقصد ’’دہشت گردی کے اس ناسور کا خاتمہ‘‘ ہے جو طویل عرصے سے پاک افغان سرحد کے امن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ان کے مطابق، دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ علاقائی استحکام اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کی جاتی۔

وزیر دفاع نے قطر اور ترکیہ کے کردار کو سراہتے ہوئے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور ترک صدر رجب طیب اردوان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس معاہدے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ ہفتے استنبول میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوگا، جس میں معاہدے کے عملی نفاذ کا طریقۂ کار طے کیا جائے گا اور باقی معاملات پر بات چیت ہوگی۔

خواجہ آصف نے امید ظاہر کی کہ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تجارت اور ٹرانزٹ آپریشنز بھی بحال ہوں گے۔ ان کے بقول، ’’جب امن بحال ہوگا تو افغانستان دوبارہ پاکستان کی بندرگاہوں اور تجارتی راستوں سے فائدہ اٹھا سکے گا۔‘‘

پناہ گزینوں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ وہ افغان شہری جن کے پاس قانونی دستاویزات ہیں، وہ پاکستان میں رہ سکتے ہیں، تاہم غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی واپسی کا عمل جاری رہے گا۔

وزیر دفاع نے محتاط انداز میں کہا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ جنگ بندی کتنی دیر برقرار رہتی ہے۔ ان کے مطابق، ’’آنے والے چند ہفتوں میں پتا چلے گا کہ اس معاہدے پر کس حد تک مؤثر عملدرآمد ہوتا ہے۔‘‘

عرب نیوز کو دیے گئے ایک اور انٹرویو میں انہوں نے ان افواہوں کو یکسر مسترد کیا کہ پاکستان نے افغانستان میں حالیہ فضائی حملے امریکہ کے کہنے پر کیے۔ ان کے الفاظ میں، ’’یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ پاکستان اب افغان معاملات میں مداخلت نہیں چاہتا۔ ہم ایک مہذب پڑوسی کے طور پر رہنا چاہتے ہیں اور ہمیں افغانستان کے دوسرے ممالک سے تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں۔‘‘

جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ دوحہ مذاکرات ’’انتہائی سنجیدہ اور پُرامن ماحول میں‘‘ ہوئے۔ انہوں نے قطر اور ترکیہ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’تمام نکات اور ترامیم انہی ممالک کے ذریعے طے پائیں، کسی قسم کی تلخی نہیں ہوئی۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ معاہدے کا اصل مسودہ صرف ایک صفحے پر مشتمل تھا، جبکہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے طویل مسودے بے بنیاد ہیں۔ استنبول میں ہونے والی آئندہ ملاقات میں معاہدے کے نفاذ کا طریقہ اور ممکنہ خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے اصول طے کیے جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر دفاع نے کہا کہ انہیں ’’محتاط امید‘‘ ہے کہ اگر دونوں فریقین سنجیدہ رہے تو امن قائم رہ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو ایک متحد حکومت کے طور پر بات کرنی چاہیے اور سرحدی خلاف ورزیوں کو کسی ’’علیحدہ دھڑے‘‘ پر ڈالنے کے بجائے اپنی ذمہ داری تسلیم کرنی چاہیے۔ اگر کوئی خلاف ورزی ہوئی تو قطر اور ترکیہ بطور ضامن ایک بار پھر مداخلت کریں گے۔

خواجہ آصف نے یہ بھی تصدیق کی کہ تحریکِ طالبان پاکستان کی پوری قیادت اب بھی افغانستان میں موجود ہے، اور یہ نکتہ استنبول اجلاس میں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کالعدم تنظیم کے ساتھ کسی براہِ راست بات چیت کا خواہاں نہیں۔ ’’ان مذاکرات کو ٹی ٹی پی سے مکالمہ سمجھنا درست نہیں ہوگا،‘‘ انہوں نے کہا۔

قطر کے جاری کردہ اعلامیے میں لفظی تبدیلیوں پر ہونے والے تنازع پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ محض ’’الفاظ کا معاملہ‘‘ ہے، جس کا معاہدے کی قانونی حیثیت سے کوئی تعلق نہیں۔

آخر میں وزیر دفاع نے کہا، ’’پاکستان نے گزشتہ برسوں میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ اگر یہ معاہدہ قائم رہتا ہے تو یہ پاک افغان تعلقات میں حقیقی امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔‘‘

More From Author

پاکستان کی تنخواہ دار طبقے نے پہلی سہ ماہی میں 130 ارب روپے ٹیکس ادا کیا

ڈھاکا ایئرپورٹ کارگو ولیج میں خوفناک آگ، برآمد کنندگان کو ایک ارب ڈالر کا نقصان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے