واشنگٹن، 26 ستمبر 2025 — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے درآمدی اشیاء کی ایک بڑی فہرست پر بھاری محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان نئی پابندیوں کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہوگا، جسے تجارتی پالیسی میں ان کی حکومت کا ایک اور بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر لکھا کہ برانڈڈ اور پیٹنٹ شدہ ادویات پر 100 فیصد ڈیوٹی لگائی جائے گی، ہیوی ڈیوٹی ٹرکس پر 25 فیصد، کچن کیبنٹس اور باتھ روم وینٹیز پر 50 فیصد، جبکہ اپہولسٹرڈ فرنیچر پر 30 فیصد محصول عائد ہوگا۔
ٹرمپ نے کہا: “یہ مصنوعات بیرونِ ملک سے امریکا میں سیلاب کی طرح آرہی ہیں، اور ہمیں اپنے کاروبار کو ان کے مقابلے سے بچانا ہوگا۔”
عالمی منڈیوں میں ہلچل
اس اعلان کے بعد ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں مندی دیکھنے میں آئی۔ آسٹریلیا کی سی ایس ایل کمپنی چھ برس کی کم ترین سطح پر آگئی، جاپان کی سومیتومو فارما کے حصص 5 فیصد سے زائد گر گئے، جبکہ ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ بائیو ٹیک انڈیکس 2.5 فیصد نیچے آگیا۔ چین میں درج فرنیچر بنانے والی کمپنیوں کے حصص بھی گرے اور انڈسٹری انڈیکس میں 1.1 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
فارماسیوٹیکل انڈسٹری نے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بھاری محصولات امریکا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ فارماسیوٹیکل ریسرچ اینڈ مینیوفیکچررز آف امریکا نے خبردار کیا: “یہ ٹیرف ہماری سرمایہ کاری کے منصوبوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔”
ٹرمپ کے مطابق 100 فیصد ڈیوٹی صرف انہی کمپنیوں پر لاگو نہیں ہوگی جو امریکا میں اپنے پیداواری یونٹس قائم کرنے کا عمل شروع کرچکی ہیں۔
پالیسی کی نئی جہتیں
یہ اقدام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پہلے سے موجود قانونی اختیارات پر زیادہ انحصار کر رہی ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ پرانے عالمی ٹیرف اقدامات کی قانونی حیثیت پر نظرثانی کر رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے سیمی کنڈکٹرز، ٹربائنز، اہم معدنیات اور صنعتی آلات کی درآمدات پر بھی تحقیقات کا آغاز کیا ہے تاکہ مزید اقدامات کیے جا سکیں۔
جاپان نے، جسے کچھ فارماسیوٹیکل مصنوعات پر خصوصی رعایتی درجہ حاصل ہے، کہا ہے کہ وہ ان نئی ڈیوٹیوں کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔ جاپان کے چیف تجارتی مذاکرات کار ریوسے آکا زاوا نے کہا: “ہم اب بھی اس کے اثرات کا باریک بینی سے تجزیہ کر رہے ہیں۔”
معاشی اور سیاسی اثرات
ٹرمپ طویل عرصے سے محصولات کو ملکی معیشت کے تحفظ اور خارجہ پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے مطابق، حکومت رواں سال کے اختتام تک ٹیرف کی مد میں تقریباً 300 ارب ڈالر جمع کرسکتی ہے۔
تاہم ناقدین خبردار کر رہے ہیں کہ زیادہ ڈیوٹی مہنگائی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، خاص طور پر ٹرکس پر 25 فیصد محصول سے ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بڑھنے کا خدشہ ہے، جو بالآخر صارفین تک زیادہ قیمتوں کی صورت میں پہنچ سکتا ہے۔
امریکی چیمبر آف کامرس نے بھی ٹرکس پر محصولات پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ زیادہ تر درآمدات قریبی اتحادی ممالک جیسے میکسیکو، کینیڈا، جاپان اور جرمنی سے آتی ہیں۔ میکسیکو، جو سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے، نے کہا کہ اس کی ٹرک انڈسٹری امریکا کے ساتھ گہرے طور پر جڑی ہوئی ہے اور ہر گاڑی کا تقریباً نصف پرزہ جات امریکا سے آتا ہے۔
ملازمتیں اور امریکی انڈسٹری
ٹرمپ بارہا دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ محصولات مقامی صنعتوں کو واپس امریکا لانے کا ذریعہ بنیں گے۔ خاص طور پر انہوں نے فرنیچر انڈسٹری کی مثال دی جو شدید زوال کا شکار ہے۔ صرف 2024 میں امریکا نے 25.5 ارب ڈالر کا فرنیچر درآمد کیا، جس میں سے تقریباً 60 فیصد چین اور ویتنام سے آیا۔
امریکا میں فرنیچر اور لکڑی کی مصنوعات کے شعبے میں ملازمتیں 2000 سے اب تک نصف رہ گئی ہیں اور اب محض 3 لاکھ 40 ہزار کے قریب رہ گئی ہیں۔
گزشتہ ماہ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسی پالیسیاں لائیں گے جن سے نارتھ کیرولائنا، ساؤتھ کیرولائنا اور مشی گن جیسی ریاستوں میں فرنیچر کا کاروبار دوبارہ بحال ہوسکے۔
حامی اسے امریکی صنعت کو بچانے کی ایک جرات مندانہ کوشش قرار دیتے ہیں، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے صارفین پر قیمتوں کا بوجھ بڑھے گا اور اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگا۔