واشنگٹن میں ملاقات، کشمیر پر امریکی ثالثی کی بازگشت

جب جنوبی ایشیا میں ایک بار پھر کشیدگی کی فضا قائم ہے، دنیا کی نظریں اس ہفتے واشنگٹن پر مرکوز ہیں، جہاں پاکستان کے نائب وزیرِاعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار 25 جولائی بروز جمعہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کریں گے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی باضابطہ ملاقات ہوگی، جس میں دو طرفہ تعلقات، علاقائی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے کئی امور زیر غور آئیں گے۔ تاہم پس منظر میں سب سے اہم اور حساس مسئلہ کشمیر کا ہے، جو بظاہر ایجنڈے پر نہ ہونے کے باوجود زیرِلب گفتگو کا مرکز بن سکتا ہے۔

یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی میں ہونے والی ہولناک جھڑپوں کے بعد ایک غیرمستحکم امن قائم ہے۔ ان جھڑپوں میں فضائی لڑائیاں، میزائل حملے اور شہری ہلاکتیں شامل تھیں، اور اگرچہ 10 مئی کے بعد جنگ بندی ہے، لیکن خطے میں تناؤ بدستور محسوس کیا جا رہا ہے۔

ثالثی کے اشارے؟

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے حالیہ پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں محتاط لیکن معنی خیز بیان دیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر براہِ راست مذاکرات کی حمایت کرے گا، جیسے وہ دریائے سندھ معاہدے پر بات چیت کی حمایت کرتا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا، “پاکستان یہاں بائی لیٹرل کے لیے آ رہا ہے، اور میں بھی اس میں شریک ہوں گی، اس ملاقات کا مجھے انتظار ہے۔” بظاہر سادہ مگر سفارتی انداز میں دی گئی اس بات نے اشارہ دیا کہ شاید کشمیر کا معاملہ براہِ راست نہ سہی، بالواسطہ طور پر زیر بحث آ سکتا ہے۔

اگرچہ اس حوالے سے کوئی باضابطہ تصدیق نہیں ہوئی، لیکن سفارتی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہیں کہ واشنگٹن مئی کی کشیدگی کے بعد ایک بار پھر خاموش ثالثی کے امکانات پر غور کر رہا ہے۔

ٹرمپ کی پرچھائیاں

اس سارے منظرنامے میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب پاکستان نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کیا، یہ کہہ کر کہ انہوں نے مئی کی کشیدگی کم کرنے میں "غیرمعمولی کردار” ادا کیا۔ پاکستانی حکام کے مطابق، ٹرمپ کی آخری لمحات میں مداخلت، اقتصادی دباؤ اور خفیہ سفارت کاری کے ذریعے، دونوں ممالک کو پیچھے ہٹنے پر آمادہ کیا گیا۔

بھارت نے ہمیشہ کی طرح کسی بیرونی اثر کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، اور دعویٰ کیا کہ جنگ بندی اس کی خودمختار پالیسی کا نتیجہ تھی۔ تاہم، ٹرمپ کے وہ ٹویٹس جن میں انہوں نے پاکستانی اور بھارتی قیادت سے بات کر کے امن قائم کرنے کا کریڈٹ لیا، صورت حال کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔

مذاکرات کی میز پر کیا ہوگا؟

یہ ملاقات امریکی انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد اسحٰق ڈار اور مارکو روبیو کے درمیان پہلا براہِ راست رابطہ ہوگی۔ اگرچہ سرکاری ایجنڈے میں تجارت، انسداد دہشت گردی اور خطے میں روابط کی بات ہوگی، لیکن جنوبی ایشیا میں تزویراتی استحکام کا معاملہ ہر گفتگو کے پس منظر میں گونجتا رہے گا۔

مایوسی کے بعد سکون — لیکن کب تک؟

تازہ کشیدگی کا آغاز 7 مئی کو اُس وقت ہوا جب بھارتی فضائیہ نے اچانک پاکستان کی حدود میں مبینہ دہشتگردی کے ڈھانچے پر حملہ کیا۔ پاکستان نے مؤقف اختیار کیا کہ ان حملوں میں عام شہری ہدف بنے، جن میں متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔

پاکستانی فضائیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے چھ جنگی طیارے مار گرائے، جن میں تین فرانسیسی ساختہ رافیل بھی شامل تھے۔ اس کے بعد تین روز تک دونوں ممالک کے درمیان فضائی حملے، ڈرون کارروائیاں اور توپوں کی گھن گرج جاری رہی، جس میں درجنوں افراد جان کی بازی ہار گئے اور سیکڑوں بے گھر ہو گئے۔

10 مئی کو بالآخر جنگ بندی کا اعلان ہوا — اور سب سے پہلے اس کا ذکر سابق صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کیا۔ ان کے مطابق، انہوں نے دونوں ممالک کی قیادت سے بات کی اور کشیدگی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ کی طرح بیرونی کردار کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے، اور کشمیر سمیت تمام مسائل پاکستان کے ساتھ باہمی سطح پر، بغیر کسی ثالث کے حل کرے گا۔

آگے کا راستہ — مکالمہ یا محاذ آرائی؟

جمعہ کو ہونے والی واشنگٹن ملاقات ایک نایاب سفارتی موقع فراہم کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ موقع صرف پرانی پوزیشنز دہرانے کے لیے استعمال ہوگا، یا کوئی نئی سمت طے کی جائے گی؟

اسحٰق ڈار کی ٹیم کی کوشش ہوگی کہ امریکہ کو پاکستان کے علاقائی خدشات خصوصاً سیکیورٹی کے حوالے سے سنجیدگی سے آگاہ کیا جائے۔ اگرچہ رسمی ثالثی کا اعلان متوقع نہیں، لیکن امریکہ کی خاموش سفارتی "باڈی لینگویج” خود بہت کچھ کہہ سکتی ہے۔

ایک بات طے ہے: کشمیر کا مسئلہ، جو برسوں سے عالمی ایجنڈے سے غائب تھا، ایک بار پھر خاموشی سے لیکن یقین کے ساتھ بین الاقوامی مکالمے میں واپس آ رہا ہے۔

کیونکہ اس دنیا میں جنگ اکثر خاموشی سے شروع ہوتی ہے — اور امن بھی تو ایک سرگوشی سے جنم لیتا ہے۔

More From Author

پی آئی اے کی یورپ واپسی کی تیاریاں مکمل، نجکاری کی کوششیں دوبارہ زور پکڑنے لگیں

‘Comet’ براؤزر: Perplexity کا نیا قدم، جلد کچھ اسمارٹ فونز پر پہلے سے انسٹال ہو سکتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے