نادرا کا کراچی میں 24/7 رجسٹریشن مراکز کا آغاز — شناختی نظام میں بڑی اصلاحات

کراچی — پاکستان میں شناختی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی جانب ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے، نادرا نے کراچی میں تین نئے قومی رجسٹریشن مراکز (Big NRCs) کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو دن رات چوبیس گھنٹے کھلے رہیں گے۔ یہ مراکز ملیر کینٹ، ملیر اور سرجانی ٹاؤن میں قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ شہریوں کو شناختی کارڈ اور خاندانی اندراج سے متعلق سہولیات مزید آسانی سے میسر آ سکیں۔

نادرا کے کراچی ہیڈکوارٹر میں ہونے والی پریس بریفنگ کے دوران، ادارے کے ڈائریکٹر اور ترجمان سید شباہت علی نے اس اقدام کو 2002 کے بعد پاکستان کے شناختی نظام کی سب سے بڑی اصلاح قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ اصلاحات عوامی شکایات کے پیشِ نظر، جعلی اندراجات کی روک تھام اور نظام کی رسائی بہتر بنانے کے لیے متعارف کرائی جا رہی ہیں۔

نیا نظام، عوام کی سہولت کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے

ان اصلاحات میں سب سے اہم اور قابلِ ذکر تبدیلی شادی شدہ خواتین کے لیے متعارف کرائی گئی ہے۔ اب خواتین اپنی مرضی سے شناختی کارڈ پر والد کا نام برقرار رکھ سکیں گی۔ ماضی میں شادی کے بعد شوہر کا نام لازمی شامل کرنا پڑتا تھا، جس پر کئی حلقے تنقید کرتے آئے ہیں۔ اس نئی سہولت کو خواتین کے ذاتی فیصلے کے احترام کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔

نادرا نے بچوں کی رجسٹریشن کے نظام کو بھی مزید مؤثر بنایا ہے۔ اب تین سال سے زائد عمر کے بچوں کے ب فارم میں تصویر اور بایومیٹرکس لازم ہوں گے، جبکہ تین سال سے کم عمر بچوں کے لیے رجسٹریشن بدستور آسان رکھی گئی ہے۔ ہر بچے کو انفرادی ب فارم جاری کیا جائے گا، اور یہ نیا فارم پاسپورٹ کے لیے لازمی ہوگا۔ پرانے فارمز اب قابلِ قبول نہیں ہوں گے، جس سے نظام میں یکسانیت اور شفافیت آئے گی۔

فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کو قانونی حیثیت حاصل

نادرا نے فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ (FRC) کو بھی مکمل طور پر اپڈیٹ کر دیا ہے۔ اب یہ دستاویز وراثت سمیت دیگر قانونی معاملات میں باقاعدہ طور پر قابلِ قبول ہوگی، جہاں ماضی میں عدالتی مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس اقدام سے شہریوں، خاص طور پر خاندانوں کو وراثتی جھگڑوں میں بڑی سہولت ملے گی۔

اسی کے ساتھ، نادرا کی Pak-ID موبائل ایپ میں بھی نمایاں بہتری لائی گئی ہے۔ شہری اب گھر بیٹھے اپنے خاندانی ریکارڈ میں تصحیح یا تبدیلی کر سکتے ہیں۔ چاہے آپ پاکستان میں ہوں یا بیرونِ ملک، یہ ایپ حکومتی سہولیات کو آپ کی انگلیوں کی پور پر لے آتی ہے — اور وہ بھی نادرا دفاتر کے برابر فیس پر۔

پوسٹ آفسز کی ناکامی کے بعد یونین کونسلز کو ذمہ داری سونپ دی گئی

نادرا نے اعتراف کیا ہے کہ پوسٹ آفسز میں شناختی سہولیات کی فراہمی پر عوام کا ردعمل مایوس کن رہا۔ اسی لیے اب ان سہولیات کو ملک بھر کی 1200 یونین کونسلز تک منتقل کر دیا گیا ہے۔ صرف سندھ میں 100 یونین کونسلز اور کراچی میں 20 یونین کونسلز کو یہ خدمات فراہم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جہاں اب شناختی کارڈ کی تجدید، ازدواجی حیثیت میں تبدیلی اور گمشدہ کارڈ کی بحالی جیسے کام با آسانی ہو سکیں گے۔

جعلی شناختی کارڈ رکھنے والوں کو رضاکارانہ واپسی کی دعوت

نادرا نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے ان افراد کو رعایت دی ہے جو جعلی شناختی کارڈ رکھتے ہیں۔ انہیں کہا گیا ہے کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر یہ کارڈ واپس کر دیں، تو فوری قانونی کارروائی سے استثنا دیا جائے گا۔ اس اقدام کا مقصد ڈیٹا بیس کو صاف کرنا ہے، بغیر کسی خوف کے۔

ڈائریکٹر شباہت علی نے زور دے کر کہا کہ نادرا شفافیت اور عوامی سہولت کو اولین ترجیح دیتا ہے، اور خاص طور پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے Pak-ID ایپ کو بے حد سراہا ہے۔

آخری بات

نادرا کی یہ اصلاحات ظاہر کرتی ہیں کہ ادارہ اب صرف پالیسی سازوں یا افسر شاہی کو نہیں، بلکہ عام شہریوں کی آواز بھی سن رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں محض کاغذی نہیں بلکہ عملی ہیں — اور اگر وعدے عمل میں ڈھل گئے، تو پاکستان میں شناخت کے عمل کو نہ صرف محفوظ، بلکہ باوقار اور قابلِ رسائی بنایا جا سکے گا۔

More From Author

سفارتی تعلقات کی بحالی کی نوید: اسحاق ڈار کی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے اہم ملاقات طے

سول اسپتال کی لفٹ میں بچے سے زیادتی: کیا یہ پردہ پوشی کی کوشش ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے