واشنگٹن – امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ذرائع ابلاغ کے ساتھ اپنے تنازع کو ایک نئے مرحلے پر پہنچاتے ہوئے وفاقی ریگولیٹرز کو ہدایت دی ہے کہ وہ ان میڈیا اداروں کے خلاف کارروائی کریں جو اُن پر تنقید کرتے ہیں۔ صدر نے فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن (ایف سی سی) سے کہا ہے کہ ایسے اداروں کے نشریاتی لائسنس منسوخ کرنے پر غور کیا جائے جو اُن کی حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق، ٹرمپ نے اپنی قانونی ٹیم کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل کے خلاف ہرجانے کے مقدمات دائر کریں، کیونکہ صدر کے بقول یہ ادارے “من گھڑت اور گمراہ کن مہمات” چلا رہے ہیں۔
اس ہفتے کے آغاز میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران ٹرمپ نے طنزیہ نوعیت کے لیٹ نائٹ شوز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اشارہ دیا کہ مقبول این بی سی کے دو پروگراموں سمیت ایسے شوز کی نشریات معطل کی جا سکتی ہیں جو بار بار اُن کی حکومت کا مذاق اُڑاتے ہیں۔
صدر کے اس جارحانہ رویے نے کانگریس میں فوری ردعمل پیدا کیا۔ ڈیموکریٹ قانون سازوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ “نو پولیٹیکل اینمیز ایکٹ” کے نام سے ایک نیا بل متعارف کرانے جا رہے ہیں، جس کا مقصد صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو حکومتی انتقامی اقدامات سے بچانا اور متاثرہ افراد کو قانونی مدد فراہم کرنا ہے۔
سینیٹ کے اکثریتی رہنما چَک شومر نے ٹرمپ کے رویے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ اقدام دراصل امریکی آئین پر براہِ راست حملہ ہے۔ اُنہوں نے خبردار کیا کہ آزادی صحافت کو کمزور کرنا دراصل جمہوریت کے سب سے بنیادی ستون کو نقصان پہنچانا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، صدر اور میڈیا کے درمیان یہ تازہ تنازع ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ ٹرمپ اور پریس کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشمکش اب نئے خدشات کو جنم دے رہی ہے، خصوصاً امریکہ میں صحافت کی آزادی کے مستقبل کے حوالے سے۔