اقوامِ متحدہ / غزہ — پاکستان نے ایک بار پھر سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرے، اس انتباہ کے ساتھ کہ شہری مسلسل بمباری، بھوک اور محاصرے کے باعث بدترین انسانی المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔
جمعہ کو کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، آصف افتخار احمد نے کہا کہ اسلام آباد فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے صورتحال کو ’’ناقابلِ برداشت‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بچے بھوک سے مر رہے ہیں، اسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور خاندانوں کے پاس نہ خوراک ہے نہ دوائی اور نہ ہی چھت۔
انہوں نے زور دیا کہ ’’پاکستان انسانیت، انصاف اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ کھڑا ہے‘‘، اور یہ بھی کہا کہ پاکستان کونسل کے اُن ارکان کے ساتھ ہے جو بڑی اکثریت میں جنگ کے فوری خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
امریکہ کا ایک بار پھر ویٹو
لیکن حسبِ روایت، امریکہ نے ایک بار پھر رکاوٹ ڈال دی۔ جمعرات کو واشنگٹن نے ایک مسودۂ قرارداد کو ویٹو کر دیا جس میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کی حمایت باقی تمام 14 ارکان نے کی تھی۔ یہ قرارداد اگست میں پیش کی گئی تھی جب اقوامِ متحدہ نے باضابطہ طور پر غزہ میں قحط کی صورتحال کا اعلان کیا تھا۔
امریکی اقدام نے اسرائیل کو بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ سے محفوظ کر دیا، حالانکہ اسی دوران اسرائیلی فوج نے غزہ سٹی پر بڑا زمینی حملہ تیز کر دیا ہے۔ ٹینکوں اور جنگی جہازوں کی بمباری نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہر چھوڑ کر جنوب کی طرف پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔
بڑھتا ہوا جانی نقصان اور عالمی تشویش
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 65 ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور قریب 1 لاکھ 58 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے اسرائیلی آپریشن کو ’’قتلِ عام‘‘ قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ادھر قانونی کارروائیوں میں بھی شدت آئی ہے۔ گزشتہ نومبر میں عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیرِ دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔ اسی دوران اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔
کارروائی کی اپیل
مسلسل بڑھتے ہوئے جانی نقصان کے باوجود امریکہ کے بار بار ویٹو نے کئی سفارتکاروں کو سخت مایوس کیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ اگر سلامتی کونسل اتنے بڑے انسانی بحران پر بھی کوئی مؤثر قدم نہ اٹھا سکی تو اس کی ساکھ خطرے میں پڑ جائے گی۔
فی الحال، ہزاروں بے گھر فلسطینی محدود سامان کے ساتھ جنوب کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہیں، جبکہ جنگ بندی کی امیدیں عالمی سیاست کی نذر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔