غیر قانونی افغان مہاجرین کے لیے مزید توسیع نہیں ہوگی، وزیرِاعظم شہباز شریف

اسلام آباد – وزیرِاعظم شہباز شریف نے واضح اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں بغیر قانونی دستاویزات کے مقیم افغان مہاجرین کے لیے مزید کسی قسم کی توسیع نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ ان کی باعزت اور فوری واپسی کو یقینی بنایا جائے۔

اسلام آباد میں جمعہ کے روز اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ "پاکستان نے یہ بوجھ بہت عرصے تک اٹھایا ہے، اب جن کے پاس قانونی ویزا نہیں ہے، انہیں وطن واپس جانا ہوگا۔”

اجلاس میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزراء، اور سندھ، پنجاب، بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نمائندے شریک تھے، جبکہ خیبر پختونخوا کی نمائندگی مزمل اسلم نے کی، کیونکہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔

وزیرِاعظم نے کہا کہ "پاکستانی عوام نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دی ہیں، اب وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہم کب تک یہ ذمہ داری اٹھاتے رہیں گے۔”

انہوں نے حالیہ دہشت گرد حملوں پر تشویش کا اظہار کیا جن میں مبینہ طور پر افغان شہری ملوث پائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ باوجود اس کے کہ پاکستان خود معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز سے گزر رہا ہے، اس نے دہائیوں تک لاکھوں افغانوں کی میزبانی کی۔ "یہ افسوسناک ہے کہ اب افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں اور افغان شہری ان واقعات میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔”

اجلاس میں حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ افغان شہریوں کی مرحلہ وار واپسی کا عمل جاری ہے اور 16 اکتوبر تک تقریباً 14 لاکھ 70 ہزار افراد اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔ فورم نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ بغیر دستاویزات والے افغان شہریوں کو مزید کوئی مہلت نہیں دی جائے گی۔

وزیرِاعظم نے تمام وفاقی و صوبائی محکموں کو ہدایت کی کہ وہ قریبی رابطے میں رہ کر اس عمل کو تیز اور مؤثر انداز میں مکمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ "صرف وہی افغان شہری پاکستان میں رہ سکیں گے جن کے پاس درست ویزا ہوگا۔”
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تاکید کی کہ واپسی کا عمل "باعزت طریقے سے کیا جائے، خصوصاً بزرگوں، خواتین، بچوں اور اقلیتی برادریوں کے ساتھ احترام کا برتاؤ یقینی بنایا جائے۔”

انہوں نے خبردار کیا کہ "کسی کے ساتھ بدسلوکی برداشت نہیں کی جائے گی، تاہم قانون اپنا راستہ ضرور لے گا۔”

وزیرِاعظم نے بتایا کہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت بشمول نائب وزیرِاعظم، وزیرِخارجہ اور وزیرِدفاع، افغان عبوری حکومت سے بارہا یہ مطالبہ کر چکی ہے کہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ "عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی نے اس معاملے کو فوری توجہ کا حامل بنا دیا ہے۔”

اجلاس کو بتایا گیا کہ افغان شہریوں کی واپسی کے لیے بارڈر پوائنٹس میں توسیع کی جا رہی ہے تاکہ عمل کو آسان اور تیز بنایا جا سکے۔ حکام نے مزید انتباہ دیا کہ کسی بھی غیر قانونی افغان شہری کو پناہ دینا یا انہیں گیسٹ ہاؤسز میں ٹھہرانا سنگین جرم تصور کیا جائے گا۔

وزیرِاعظم نے پاک فوج کی حالیہ سرحدی کارروائیوں میں مؤثر ردعمل پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ "فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں ہماری مسلح افواج نے افغانستان سے ہونے والے حملوں کا بھرپور جواب دیا اور ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ مادرِوطن کے دفاع کے لیے ہر دم تیار ہیں۔”

اجلاس کے شرکاء نے حکومت کی "سفارتی کامیابی” کو سراہا اور وزیرِاعظم و آرمی چیف کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور قیادت کی تعریف کی۔ اجلاس کے اختتام پر غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی سے متعلق تمام سفارشات پر عمل درآمد کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

سرحد پر کشیدگی میں اضافہ

دوسری جانب دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ کابل میں موجود طالبان انتظامیہ افغان عوام کی نمائندہ حکومت نہیں ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق "فی الحال افغانستان میں کوئی باقاعدہ حکومت موجود نہیں، بلکہ ایک گروہ ہے جس نے طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کیا ہے۔”

کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان جنگجوؤں نے، مبینہ طور پر "بھارت نواز فتنہ الخوارج کے عناصر کی حمایت سے”, پاکستانی سرحدی چوکیوں پر بلااشتعال حملہ کیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق "یہ بزدلانہ حملہ جس میں سرحد پار فائرنگ اور محدود دراندازی شامل تھی، خطے کو غیر مستحکم کرنے اور فتنہ الخوارج کے مذموم عزائم کو آگے بڑھانے کی کوشش تھی۔”
بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی افواج نے اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے حملہ آوروں کو بھاری نقصان پہنچایا۔

اس کے بعد پاکستان نے 15 اکتوبر کو قندھار اور کابل میں طالبان اور دہشت گرد ٹھکانوں پر ہدفی کارروائیاں کیں، جس کے بعد افغان حکام کی درخواست پر دونوں ممالک نے 48 گھنٹے کی عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا۔

دفترِ خارجہ کے مطابق "یہ جنگ بندی تعمیری مذاکرات کے لیے گنجائش پیدا کرنے اور ایک مثبت و پائیدار حل کی راہ ہموار کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ یہ عارضی وقفہ سرحدی استحکام کو فروغ دینے اور مفاہمت کی فضا قائم کرنے کا ایک موقع ہے۔”

More From Author

پاکستان میں انٹرنیٹ اور سولر پینلز کی قیمتوں میں اضافے کا امکان

افغانستان نے پاکستان میں ہونے والے ٹی 20 ٹرائی نیشن سیریز سے دستبرداری کا اعلان کر دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے