اقوامِ متحدہ میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں واضح کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے لیے قرضے کوئی حل نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جو ملک پہلے ہی قرضوں اور قدرتی آفات کے بوجھ تلے دبے ہیں، انہیں مزید مقروض کرنے کے بجائے براہِ راست مالی امداد یعنی گرانٹس فراہم کی جائیں۔
وزیرِاعظم نے یاد دلایا کہ پاکستان حالیہ برسوں میں شدید ماحولیاتی آفات کا سامنا کر چکا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلابوں نے تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور انفراسٹرکچر برباد ہو گیا۔ آج بھی متاثرہ علاقے مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے۔ شہباز شریف کے مطابق یہ ثبوت ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار کم ممالک سب سے زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آفات کے بعد قرضے لینا مزید مسائل پیدا کرتا ہے۔ قرضوں کی واپسی پر وسائل ضائع ہونے کے بجائے یہ رقوم بحالی، تحفظ اور مستقبل کے منصوبوں پر خرچ ہونی چاہئیں۔ اُنہوں نے کہا: “ہمیں مزید بیڑیاں نہیں بلکہ سہارا دینے والے ہاتھ چاہییں۔”
وزیرِاعظم نے یہ بھی بتایا کہ مشکلات کے باوجود پاکستان نے اپنے اہداف ترک نہیں کیے۔ حکومت نے عزم کیا ہے کہ 2030 تک ٹرانسپورٹ کا 30 فیصد حصہ پائیدار نظام پر منتقل کیا جائے گا، جبکہ قابلِ تجدید توانائی اور ہائیڈرو پاور کے منصوبے بھی بڑھائے جائیں گے۔ تاہم یہ سب تبھی ممکن ہوگا جب عالمی برادری قرضوں کے بجائے گرانٹس فراہم کرے۔
انہوں نے زور دیا کہ ماحولیاتی تبدیلی محض ماحول کا نہیں بلکہ عوامی سلامتی، خوراک، معیشت اور عالمی امن کا مسئلہ ہے۔ اگر دنیا نے قرضوں کو ہی امداد کا ذریعہ بنایا تو آج کی مدد کل کا بوجھ بن جائے گی۔
پاکستانی قیادت کا یہ موقف دراصل اُن تمام ترقی پذیر ممالک کی آواز ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے براہِ راست متاثر ہیں۔ شہباز شریف نے واضح کیا کہ اصل انصاف تبھی ممکن ہے جب مدد ایسی ہو جو طاقت دے، نہ کہ غلامی کی زنجیریں ڈالے۔ بقا پر سود لگانا کسی صورت قابلِ قبول نہیں