اسلام آباد: وفاقی حکومت حالیہ تباہ کن سیلابوں سے متاثرہ کسانوں کا مالی بوجھ کم کرنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے، جن میں زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ (ZTBL) کے قرضے معاف کرنے یا ان کی دوبارہ شیڈولنگ شامل ہے۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ کے حالیہ اجلاس میں متعدد وزراء نے سفارش کی کہ کسانوں پر واجب الادا قرض یا تو مکمل طور پر ختم کر دیے جائیں یا قسطوں کی نئی صورت میں مرتب کیے جائیں، جبکہ سود کو بھی مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ ارکان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کے ذریعے ان کسانوں کو ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے جو شدید مالی نقصانات سے دوچار ہیں۔
اجلاس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ 2024-25 کی گندم کی فصل میں قیمتوں میں کمی کے باعث کسان پہلے ہی بھاری نقصان اٹھا چکے ہیں، جس کے بعد اب زیادہ تر کسان آئندہ سیزن میں گندم کاشت کرنے سے گریزاں ہیں۔ وزراء نے خبردار کیا کہ اگر صوبائی حکومتوں نے گندم کے لیے سپورٹ پرائس کا نظام بحال نہ کیا تو پاکستان کو گندم درآمد کرنے والا ملک بننا پڑ سکتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ فی الوقت سپورٹ پرائس کا اعلان کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ اس کا فائدہ براہِ راست ذخیرہ اندوزوں کو ہوگا۔ اس کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ کسی بھی نئی زرعی پالیسی سے پہلے براہِ راست کسانوں سے مشاورت کرے۔
کابینہ اراکین نے اس حقیقت کی جانب بھی توجہ دلائی کہ زراعت اور ماحولیاتی تبدیلی صوبائی معاملات ہیں، اس لیے مستقبل کے منصوبے صوبوں کی مشاورت اور ان کے مالی تعاون سے مرتب کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کے پاس اتنی گنجائش موجود نہیں کہ وہ صوبوں کے مالی بوجھ کو بھی اٹھا سکے۔
اجلاس میں زور دیا گیا کہ ایک دوطرفہ حکمتِ عملی اپنائی جائے — قلیل مدتی اقدامات کے ذریعے کسانوں کو فوری ریلیف دیا جائے اور طویل المدتی اصلاحات کے ذریعے زراعت کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات سے محفوظ بنایا جائے۔
مزید یہ بھی تجویز دی گئی کہ پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل، جو 2017 کے ماحولیاتی تبدیلی ایکٹ کے تحت قائم کی گئی تھی اور جس میں صوبائی وزراء شامل ہیں، کا فوری اجلاس بلایا جائے تاکہ زراعت اور ماحولیاتی امور پر مشترکہ اور مربوط حکمتِ عملی تشکیل دی جا سکے۔
کابینہ ارکان نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی ایک سنگین مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ یہ نہ صرف ملک کے محدود وسائل پر بوجھ ڈال رہی ہے بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بھی مزید سنگین بنا رہی ہے۔ اس تناظر میں تجویز دی گئی کہ منصوبہ بندی کے وزیر کی سربراہی میں ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹری بھی شامل ہوں، تاکہ زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے عملی منصوبہ مرتب کیا جا سکے۔