کراچی — سندھ ہائیکورٹ نے سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر وفاقی وزارتِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں، جس میں انہوں نے کراچی میں سرکاری رہائش گاہ کی الاٹمنٹ کو اپنی مدتِ صدارت کے بعد کی مراعات کے طور پر دینے کی استدعا کی ہے۔
دو رکنی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس محمد فیصل کمال عالم کر رہے ہیں، نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کو ہدایت کی کہ وہ 9 اکتوبر تک اپنے جوابات جمع کرائیں۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو بھی آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی، جو 2018 سے 2024 تک ملک کے صدر رہے، قانون کے مطابق اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد کچھ مراعات اور سہولتوں کے حقدار ہیں، جن میں تاحیات سرکاری رہائش گاہ کی فراہمی بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر علوی کے وکیل ایڈووکیٹ علی طاہر نے عدالت کو بتایا کہ ابتدا میں انہیں بنگلہ نمبر 3-A، باتھ آئی لینڈ بطور سرکاری رہائش الاٹ کیا گیا تھا، تاہم بعد میں حکومت نے پالیسی کے تحت انہیں بنگلہ نمبر 5-A الاٹ کر دیا۔
تاہم وکیل کے مطابق، یہ نیا گھر اس وقت کسٹمز افسر شہاب امام کے قبضے میں ہے، جو اس کیس میں فریق بھی ہیں۔ وکیل نے مؤقف اپنایا کہ سابق صدر اپنے حق میں الاٹ ہونے کے باوجود انتظامی رکاوٹوں اور زیرِ سماعت مقدمات کے باعث اب تک گھر کا قبضہ حاصل نہیں کر سکے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شہاب امام نے گزشتہ سال 2023 میں سندھ ہائیکورٹ سے اس گھر کے حوالے سے عبوری حکمِ امتناع (اسٹے آرڈر) حاصل کیا تھا، اور وہ بھی بغیر اس مقدمے میں ڈاکٹر علوی کو فریق بنائے۔ وکیل نے بتایا کہ یہ کیس نومبر 2023 سے اب تک سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کیا گیا، جس کے باعث معاملہ تاحال زیرِ التوا ہے۔
ایڈووکیٹ علی طاہر نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر علوی نے نیا الاٹمنٹ آرڈر ملنے کے بعد اپنی سابقہ رہائش گاہ (بنگلہ نمبر 3-A) خالی کر دی تھی اور ذاتی سامان ایک کمرے میں منتقل کر دیا تھا۔ اس بنگلے کا قبضہ بعد ازاں ریٹائرڈ کیپٹن عاصم خان کے حوالے کر دیا گیا، جنہوں نے سابق صدر سے باقی ماندہ سامان فوری طور پر ہٹانے کی ہدایت کی۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ متعلقہ حکام کو ہدایت دی جائے کہ وہ الاٹ شدہ رہائش گاہ کا باقاعدہ قبضہ سابق صدر کو دیا جائے اور ان کے قانونی حق کو حکومت کی پالیسی کے مطابق تسلیم کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔