’رفتار‘ کی دستاویزی فلم نے کراچی کے ویٹروں کی پوشیدہ محرومیوں کو بے نقاب کر دیا

کراچی – روشنیوں کے اس شہر میں جہاں کھانے پینے کو ایک ثقافت اور طرزِ زندگی سمجھا جاتا ہے، وہیں ریستورانوں کے چمکتے دمکتے منظرناموں کے پیچھے ایک تلخ حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے رفتار کی نئی دستاویزی فلم ”Exposing Karachi’s Restaurant Industry“ نے اجاگر کیا ہے۔ یہ فلم گزشتہ ہفتے رفتار کے یوٹیوب چینل پر جاری کی گئی، جسے معروف نریٹر شفاء لغاری نے بیان کیا۔ فلم میں کراچی کے ان ویٹروں کی کہانی دکھائی گئی ہے جو طویل اوقاتِ کار کے باوجود یا تو معمولی اجرت پاتے ہیں یا پھر بالکل بھی تنخواہ نہیں لیتے۔

شفاء لغاری کہتی ہیں، “کراچی والوں کے لیے کھانا صرف ضرورت نہیں، ایک جنون ہے۔ سمندر کے علاوہ، یہی وہ چیز ہے جو کراچی کو اسلام آباد اور لاہور سے منفرد بناتی ہے۔” لیکن جب انہوں نے ریستورانوں کے پسِ پردہ حالات دیکھے تو حیران رہ گئیں کہ ہزاروں ویٹر صرف ٹِپس پر گزارا کر رہے ہیں۔

تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ بعض مشہور فاسٹ فوڈ چینز اپنے ملازمین کو ماہانہ صرف 15 ہزار روپے دیتی ہیں، جبکہ ڈی ایچ اے یا بخاری کمرشل جیسے پوش علاقوں کے کیفے زیادہ سے زیادہ 35 ہزار روپے تک ادا کرتے ہیں۔ کئی چھوٹے ریستوران تو کسی قسم کی تنخواہ ہی نہیں دیتے، بلکہ ویٹروں کو صرف کل سیلز کا 5 فیصد کمیشن دیا جاتا ہے۔ “بوٹ بیسن کے ویٹر تو مکمل طور پر ٹِپس پر زندہ ہیں،” شفاء نے بتایا۔

فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ویٹروں کی زندگی کس قدر غیر یقینی حالات میں گزرتی ہے۔ ان کے کام کے اوقات تو طے ہیں — اکثر 12 گھنٹے یا اس سے زیادہ لیکن ان کی آمدنی کا انحصار گاہک کے موڈ پر ہوتا ہے۔ “ٹِپ کسی کی محنت کی تعریف ہوتی ہے، اس کی تنخواہ نہیں،” شفاء کہتی ہیں۔ “اگر گاہک ٹِپ نہ دے یا کاروبار سست ہو تو یہ لوگ خالی ہاتھ گھر چلے جاتے ہیں۔”

رفتار نے فلم میں ایسے فرضی ریستوران مالکان کے بیانات بھی شامل کیے جو اپنے استحصالی رویے کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک مالک طنزیہ انداز میں کہتا ہے: “تو کیا ہوا اگر ہم انہیں تنخواہ نہیں دیتے، انہیں ٹِپس تو ملتی ہیں۔ اگر ہم 40 ہزار دیں گے تو دکان بند کرنی پڑے گی۔ کم از کم انہیں نوکری تو ملی ہوئی ہے، ورنہ سڑکوں پر موبائل چھین رہے ہوتے۔”

پاکستان اکنامک سروے کے مطابق، صرف کراچی میں 55 ہزار ریستوران اور ہوٹل موجود ہیں جن میں 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کاروباروں کے منافع کی شرح 100 سے 200 فیصد تک ہے، اس کے باوجود بیشتر ریستوران لیبر لاز کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں۔ فلم میں سوال اٹھایا گیا: “اگر ریستوران واقعی خسارے میں ہیں تو پھر ہر گلی میں نیا ریستوران کیسے کھل رہا ہے؟”

دستاویزی فلم میں چیف انسپکٹر آف لیبر، اطہر علی شاہ بھی شامل ہیں، جو تسلیم کرتے ہیں کہ سندھ حکومت کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ 40 ہزار روپے پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔ وہ کہتے ہیں، “ہمارے پاس مکمل نظام موجود ہے، مزدور ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ مگر نوکری جانے کے خوف سے وہ خاموش رہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کم از کم اجرت نہ دینا جرم ہے، اور اس پر مالکان کو جیل بھی ہو سکتی ہے۔”

دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ریستوران مالکان خود یہ سمجھتے ہیں کہ 40 ہزار روپے بھی ناکافی ہیں۔ ایک مالک عبدالہادی صمد کہتے ہیں، “سوچیں، 40 ہزار میں کوئی شخص کیسا گزارہ کرے گا؟ نہ کرایہ دے سکے گا، نہ بجلی کا بل، نہ بچوں کی تعلیم۔ یہ زندگی نہیں، بس ایک جدوجہد ہے۔”

رفتار کی یہ فلم ایک بار پھر ثابت کرتی ہے کہ کہانی سنانے کی طاقت معاشرے میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ یہ فلم ان بے آواز افراد کی آواز بنی ہے جو روزانہ ہماری خدمت کرتے ہیں، مگر خود سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہیں۔ ہر کپ چائے، ہر پلیٹ بریانی کے پیچھے چھپی ان کی محنت اب مزید چھپ نہیں سکتی۔

More From Author

کراچی میں مردہ مرغیوں کا گوشت برآمد، دو افراد گرفتار

وزیرِاعظم کے مشیر کا پیغام: کسی بھی حملے کا “مضبوط اور منہ توڑ جواب” دیا جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے