امریکی سیاست میں ایک تاریخی سنگِ میل عبور کرتے ہوئے ذوہرن ممڈانی نیویارک سٹی کے پہلے مسلمان میئر بن گئے ہیں۔ ڈیموکریٹک سوشلسٹ نظریات کے حامل ممڈانی نے سخت مقابلے کے بعد سابق گورنر اینڈریو کومو اور ریپبلکن امیدوار کرٹس سلوا کو شکست دے کر یہ کامیابی حاصل کی۔
یہ انتخاب نیویارک کی تاریخ کے سب سے دلچسپ اور اہم انتخابات میں سے ایک ثابت ہوا، جس میں انیس سو انہتر کے بعد سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ دیکھا گیا۔ دو ملین سے زائد شہریوں نے اپنے ووٹ ڈال کر اس بات کا اظہار کیا کہ وہ شہر کے مستقبل اور اپنی روزمرہ زندگی سے جڑے مسائل کے بارے میں کتنی گہری فکر رکھتے ہیں۔
1991 میں یوگنڈا میں بھارتی نژاد والدین کے گھر پیدا ہونے والے ممڈانی کی کامیابی نیویارک کے کثیرالثقافتی اور روادار معاشرتی مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔ سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے وہ ایک سماجی کارکن اور کمیونٹی آرگنائزر کے طور پر جانے جاتے تھے، جو سستی رہائش، تارکین وطن کے حقوق اور سماجی مساوات کے لیے سرگرم رہے یہی موضوعات ان کے انتخابی مہم کی بنیاد بنے۔
ماہرین کے مطابق ممڈانی کی کامیابی امریکی سیاست میں ایک نیا موڑ ہے، خاص طور پر مسلم اور جنوبی ایشیائی کمیونٹی کی نمائندگی کے لحاظ سے۔ ان کی مہم کا مرکزی پیغام انصاف، شمولیت اور مساوات پر مبنی تھا ایک ایسا نیویارک جہاں ہر فرد، چاہے اس کا تعلق کسی بھی نسل، مذہب یا پس منظر سے ہو، خود کو نمائندگی یافتہ محسوس کرے۔
دنیا بھر میں ان کی کامیابی کو امید اور مثبت تبدیلی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ ممڈانی کا نیویارک کے میئر بننا اس شہر کے بدلتے ہوئے مزاج اور اس کے جمہوری جذبے کا ثبوت ہے ایک ایسا نیویارک جو تنوع، انصاف اور برابری کے اصولوں پر مضبوطی سے کھڑا ہے۔