پاکستان کے نامور کوہ پیما شہروز کاشف — جو ملک کی تاریخ میں سب سے کم عمر کوہ پیما ہیں جنہوں نے دنیا کی تمام 14 آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں کو سر کیا — ایک بار پھر حکومت کی وعدہ خلافیوں اور عدم توجہی پر آواز بلند کر رہے ہیں۔
22 سالہ شہروز نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک جذباتی پیغام میں لکھا کہ حکومت نے بارہا ان سے مالی انعامات اور امداد کے وعدے کیے، مگر سب وعدے “بھلا دیے گئے۔” انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کا فوری نوٹس لیں۔
شہروز کا کہنا تھا کہ ان کا شوق اور وطن سے محبت انہیں پہاڑوں کی بلندیوں تک لے گئی، لیکن اس سفر کی قیمت انہوں نے اپنی زندگی کی جمع پونجی سے ادا کی۔
“میں نے اپنی زمین بیچی، گاڑی بیچی، اور اب بھی پچھلی مہمات کے قرض میں ڈوبا ہوا ہوں۔ آخر کیسے ممکن ہے کہ جس شخص نے پاکستان کا جھنڈا دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں پر لہرایا، اسے یوں نظرانداز کر دیا جائے؟”
اگرچہ حکومتِ پاکستان نے رواں سال کے آغاز میں شہروز کاشف کو ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا، مگر ان کے بقول آج تک وعدہ شدہ ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔
جیو نیوز سے گفتگو میں شہروز نے بتایا کہ انہوں نے اپنی مہمات پر تقریباً چار کروڑ روپے خرچ کیے۔
“میری ہر چڑھائی صرف میری کامیابی نہیں تھی، یہ دنیا کو یہ دکھانے کا ایک پیغام تھا کہ پاکستانی بھی دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو فتح کر سکتے ہیں۔”
شہروز کا پہاڑوں سے رشتہ بچپن میں ہی جڑ گیا تھا۔ صرف گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے مکڑا پیک (3,885 میٹر) سر کی، جو ان کے شاندار کیریئر کی بنیاد بنی۔
بعد ازاں وہ ایوریسٹ اور کے ٹو دونوں سر کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین کوہ پیما بنے، اور براڈ پیک سر کرنے کے بعد انہیں "براڈ بوائے” کے نام سے پہچانا جانے لگا۔
تاہم آج ان کی زندگی کی کہانی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ دکھوں سے بھی بھری ہوئی ہے۔ شہروز نے بتایا کہ ایک خطرناک ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن کے بعد اب ان کی کمر میں راڈز لگی ہوئی ہیں، اور چلنے پھرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔
“میری طبیعت بگڑ چکی ہے، مگر کسی نے میرے علاج کے اخراجات تک نہیں اٹھائے۔ کیا یہی سلوک ہونا چاہیے اس شخص کے ساتھ جس نے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کیا؟”
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا،
“کیا ہم اپنے ہیروز کو یوں بھلا دیتے ہیں؟ کیا یہ انعام ہے اس کارنامے کا کہ ایک شخص نے پاکستان کا جھنڈا زمین سے آسمانوں تک پہنچایا؟”
مایوسی کے عالم میں شہروز نے عندیہ دیا کہ اگر یہ رویہ جاری رہا تو وہ بیرونِ ملک اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
“اگر یہی حال رہا، تو شاید مجھے اپنا مستقبل پاکستان کے بجائے کہیں اور دیکھنا پڑے۔”
یہ پہلا موقع نہیں کہ شہروز کاشف نے اپنی ناامیدی کا اظہار کیا ہو۔ 2022 میں بھی انہوں نے حکومت کی عدم معاونت پر کھل کر تنقید کی تھی، جب ان کے عالمی ریکارڈز کے باوجود انہیں نہ مالی امداد ملی، نہ اسپانسرشپ۔
شہروز کے مطابق، صرف ایوریسٹ کی مہم پر ہی 60 ہزار ڈالر کا خرچ آیا، جو انہوں نے اپنی ذاتی بچت اور قرضوں سے پورا کیا۔
سالوں گزرنے کے باوجود نہ وہ قرض ادا ہو سکے، نہ حکومتی وعدے پورے ہوئے۔
دنیا کی سب سے بلند چوٹیوں کو سر کرنے کے بعد شاید شہروز کاشف کی چڑھائی ختم ہو چکی ہو،
مگر اپنے ملک میں عزت، انصاف اور سپورٹ کے حصول کی جدوجہد لگتا ہے اب شروع ہوئی ہے۔