بلو اکانومی پاکستان کے لیے ’گیم چینجر‘ ثابت ہوگی: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی بلو اکانومی (Blue Economy) ملک کی معیشت کے لیے ایک ’’گیم چینجر‘‘ ثابت ہو سکتی ہے، بشرطِ استحکامِ پالیسی اور واضح حکمتِ عملی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس شعبے میں طویل المدتی ترقی کے لیے ایک جامع روڈ میپ اور بلند اہداف طے کیے ہیں۔

ورچوئل میری ٹائم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے تسلیم کیا کہ اس وقت پاکستان کا اس شعبے میں حصہ نہایت محدود ہے — جو قومی جی ڈی پی کا صرف 0.4 سے 0.5 فیصد یعنی تقریباً ایک ارب ڈالر بنتا ہے۔ تاہم، ان کے مطابق حکومت نے 2047 تک اس شعبے کو 100 ارب ڈالر کی سطح تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

’’ایک ارب ڈالر سے سو ارب ڈالر کی بلو اکانومی تک پہنچنا یقیناً ایک انقلابی تبدیلی ہوگی،‘‘ اورنگزیب نے کہا۔ ’’یہ وہی وژن ہے جو پاکستان کی طویل المدتی ترقی کے لیے ضروری ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بلو اکانومی پاکستان کے لیے نئے مواقع اور معاشی استحکام کا ذریعہ بن سکتی ہے، جو نہ صرف تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دے گی بلکہ ملک کی عالمی سطح پر ساکھ کو بھی مضبوط بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات اب حکومت سے حکومت کی سطح سے آگے بڑھ کر سرمایہ کاری اور تجارتی تعاون کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔ ’’یہ تبدیلیاں ان شاءاللہ پاکستان کو پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کریں گی،‘‘ وزیر خزانہ نے کہا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کا منصوبہ کئی اہم ستونوں پر مبنی ہے، جن میں ماہی گیری اور آبی زراعت (Fisheries and Aquaculture) کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے تحت ویلیو ایڈڈ پراسیسنگ، کولڈ چین لاجسٹکس کی جدید کاری، اور عالمی معیار کی حفظانِ صحت کے نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سی فوڈ ایکسپورٹ تقریباً 50 کروڑ ڈالر ہے، جسے اگلے تین سے چار سال میں دو ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدامات قومی ماہی گیری و آبی زراعت پالیسی کے تحت عمل میں لائے جا رہے ہیں جو اقوامِ متحدہ کے ادارے FAO کے تعاون سے تیار کی جا رہی ہے، تاکہ پالیسی میں تسلسل برقرار رہے۔

وزیر خزانہ نے کراچی، پورٹ قاسم اور گوادر کی بندرگاہوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے منصوبوں پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق، ’’ہم ان بندرگاہوں کو ڈیجیٹائز کر رہے ہیں تاکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ان کی کارکردگی بہتر ہو اور علاقائی تجارت میں اضافہ ہو۔‘‘

اورنگزیب نے یہ بھی کہا کہ قابلِ تجدید توانائی اور میرین بائیوٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں ترقی بلو اکانومی کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہے۔ ’’ہم سمندری ہواؤں اور لہروں سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کر رہے ہیں اور میرین بائیوٹیکنالوجی کی ویلیو چینز کو فروغ دے رہے ہیں،‘‘ انہوں نے بتایا۔

ان منصوبوں کے لیے بلو بانڈز اور بلینڈڈ فنانسنگ ماڈلز جیسے جدید مالیاتی طریقہ کار اختیار کیے جائیں گے تاکہ ترقی ماحول دوست اور پائیدار بنیادوں پر ہو۔

آخر میں وزیر خزانہ نے کہا کہ بلو اکانومی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، مصنوعی ذہانت (AI) اور مائننگ جیسے شعبے بھی پاکستان کی طویل المدتی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

’’یہ محض ایک شعبہ نہیں بلکہ پاکستان کے لیے ایک گیم چینجر موقع ہے،‘‘ وزیر خزانہ نے کہا۔ ’’اگر ہم واضح اہداف اور پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھیں تو یہ شعبہ ہماری معیشت کا منظرنامہ بدل سکتا ہے۔‘‘

More From Author

فیلڈ مارشل عاصم منیر دنیا کے بااثر ترین مسلم رہنماؤں میں شامل

کراچی میں شہریوں پر فائرنگ کرنے والا شخص گرفتار، ڈمپر ایسوسی ایشن کا صدر مفرور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے