امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کے بعد کے دور کو مستحکم کرنے کیلئے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ غیرملکی خبر رساں ادارے Axios کے مطابق، واشنگٹن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو ایک مجوزہ مسودہ بھجوایا ہے جس میں بین الاقوامی سیکیورٹی فورس (ISF) کے قیام کی منظوری مانگی گئی ہے۔ اس فورس کو کم از کم دو سالہ مینڈیٹ کے ساتھ کام کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جسے 2027 کے بعد بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ فورس غزہ میں امن و امان برقرار رکھنے، عسکریت ختم کرنے اور منتقلی کے دور میں انتظامی استحکام پیدا کرنے کیلئے تعینات کی جائے گی۔ مسودے کو “sensitive but unclassified” قرار دیا گیا ہے، اور اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ فورس روایتی امن مشن نہیں بلکہ ایک “نفاذی فورس” ہوگی، جسے بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنا مینڈیٹ پورا کرنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرنے کا اختیار ہوگا۔
ذرائع کے مطابق، اس فورس کو غزہ کے اندر “بورڈ آف پیس” کے مشورے سے کام کرنا ہوگا، جس کی سربراہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ یہ بورڈ 2027 تک ایک عبوری انتظامی ادارے کے طور پر کام کرے گا اور مقامی فلسطینی ماہرین پر مشتمل ایک تکنیکی کمیٹی کی نگرانی کرے گا جو روزمرہ کی شہری انتظامیہ سنبھالے گی۔
مجوزہ مسودے میں اس فورس کے بنیادی فرائض میں اسرائیل اور مصر کی سرحدوں کی حفاظت، شہریوں اور امدادی راستوں کا تحفظ، اور نئی فلسطینی پولیس فورس کی تربیت شامل ہیں، تاکہ مستقبل میں وہ خود سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھال سکیں۔
دستاویز کے مطابق، یہ فورس عسکری ڈھانچے کے خاتمے، مسلح گروہوں کے ہتھیار جمع کرنے اور عسکری سرگرمیوں کی بحالی کو روکنے کی بھی ذمہ دار ہوگی۔ اس کا مقصد غزہ کی مکمل غیر عسکریت کو یقینی بنانا ہے۔
یہ مسودہ اسرائیل اور مصر کے ساتھ قریبی تعاون پر زور دیتا ہے اور انسانی امداد کی تقسیم میں اقوام متحدہ، ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ جیسے اداروں کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔ جو تنظیمیں امداد کا غلط استعمال کریں گی، انہیں فہرست سے خارج کر دیا جائے گا۔
یہ منصوبہ امریکا کی ثالثی میں طے پانے والے “غزہ امن معاہدے” کا ایک اہم حصہ ہے، جس کے نتیجے میں 10 اکتوبر کی جنگ بندی عمل میں آئی تھی۔ اس جنگ بندی میں پاکستان، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، ترکیہ اور انڈونیشیا جیسے مسلم ممالک نے کلیدی کردار ادا کیا۔
گزشتہ روز سات مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے استنبول میں ملاقات کی، جہاں انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ غزہ کا نظم و نسق اور سیکیورٹی بالآخر فلسطینیوں کے ہی ہاتھ میں ہونی چاہیے، تاہم عبوری دور میں استحکام کیلئے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت ایک فورس کی ضرورت ہے۔
ترک وزیر خارجہ حکان فیدان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ کسی بھی ملک کی افواج بھیجنے سے قبل ایک واضح اور قانونی مینڈیٹ ضروری ہے۔ ان کے بقول، “پہلے ایک عمومی اتفاق رائے ہونا چاہیے، پھر سلامتی کونسل کی منظوری اور یہ فیصلہ کسی مستقل رکن کی ویٹو سے آزاد ہونا چاہیے۔”
واشنگٹن اس وقت عرب اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ فورس کی تشکیل پر مشاورت کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، پاکستان بھی اس فورس میں شمولیت پر غور کر رہا ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب یہ مشن اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت ہو۔
اگر اس مجوزہ قرارداد کو منظور کر لیا گیا تو یہ غزہ کے مستقبل کیلئے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے ایک ایسا مرحلہ جہاں ایک بین الاقوامی فورس کے ذریعے خطے کو مستحکم کر کے فلسطینیوں کو اپنے نظامِ حکومت کے قیام کی راہ دی جا سکے گی۔