افغانستان کی شرائط بے معنی ہیں، پاکستان کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ ہی اہم ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر

اسلام آباد — ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ افغانستان کی جانب سے عائد کی جانے والی شرائط پاکستان کے لیے کسی اہمیت کی حامل نہیں، کیونکہ پاکستان کی اولین ترجیح صرف اور صرف دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہے۔

پیر کے روز سینئر صحافیوں کو دیے گئے ایک تفصیلی ان کیمرہ بریفنگ میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ اور استنبول میں ہونے والے حالیہ مذاکرات کے تناظر میں واضح مؤقف اختیار کیا۔ انہوں نے کہا، “افغانستان کی شرائط بے معنی ہیں، ہمارے لیے صرف دہشت گردی کا خاتمہ اہم ہے۔”

گزشتہ ماہ 19 اکتوبر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں فوری جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنے کا عہد کیا تھا۔ بعد ازاں 25 اکتوبر کو استنبول میں مذاکرات کے دوسرے دور کا آغاز ہوا، جہاں پاکستان نے طالبان کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے ایک مؤثر نظام قائم کرنے کی تجویز دی۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا کہ پاکستان کی سلامتی کی ضمانت صرف اس کی مسلح افواج ہیں، نہ کہ افغانستان۔ ان کے بقول، “ہم نے کبھی طالبان کے اقتدار میں آنے کا جشن نہیں منایا۔ پاکستان کا مؤقف شروع دن سے یہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرینس ہے۔”

انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنز میں اب تک 1,600 سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں، جن میں کالعدم تنظیمیں ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ارکان بھی شامل ہیں۔

“استنبول میں افغان طالبان کو دوٹوک پیغام دیا گیا کہ دہشت گردی پر قابو پانا ان کی ذمہ داری ہے۔ ہم نے اپنے ملک میں آپریشن کیے، اور جب دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے تو ہم نے انہیں حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے ساتھ قانون اور آئین کے مطابق نمٹا جائے گا، دہشت گردوں سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔”

ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ دہشت گرد تنظیمیں منشیات کے کاروبار سے لاکھوں روپے کماتی ہیں۔ ان کے مطابق، “ایک ایکڑ پوست کی کاشت سے 18 سے 25 لاکھ روپے تک حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ منظم نیٹ ورک ہے جس میں مجرم، منشیات فروش اور جنگجو سب شامل ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ افغان منشیات فروش نہ صرف پاکستان میں منشیات اسمگل کر رہے ہیں بلکہ افغانستان کی سیاست میں بھی مداخلت کر رہے ہیں۔

سینئر صحافی حامد میر نے، جو اس بریفنگ میں شریک تھے، بتایا کہ صحافیوں کو افغان طالبان کے اُن اہلکاروں کے شواہد دکھائے گئے جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث پائے گئے۔ “ہمیں وہی شواہد دکھائے گئے جو دوحہ میں طالبان کے ساتھ شیئر کیے گئے تھے،” حامد میر نے بتایا۔ “ان میں افغان فوجی شناختی کارڈز بھی شامل تھے۔”

حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں شدید کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے، جس میں سرحدی جھڑپیں، الزامات اور جوابی بیانات شامل ہیں۔ 11 اکتوبر کو افغانستان سے پاکستان پر ہونے والے حملے کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی تھی، جس کے بعد اسلام آباد پر فضائی حملوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے — جن کی نہ تو پاکستان نے تصدیق کی اور نہ تردید۔

پاکستان کا مسلسل مطالبہ ہے کہ طالبان اپنی سرزمین دہشت گرد تنظیموں کے استعمال سے روکیں، تاہم طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ اس تمام تناؤ کے باوجود، دونوں ممالک دوحہ میں مذاکرات کی میز پر آئے اور عارضی جنگ بندی پر متفق ہوئے، جب کہ استنبول میں طویل المدتی امن کے لیے مزید بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

ترکی اور قطر نے ان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ قطر پہلے بھی طالبان اور نیٹو کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کر چکا ہے۔

More From Author

پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو 2025 کراچی میں شروع نیلی معیشت کے فروغ پر توجہ

پاکستان مشرق و مغرب کے درمیان ایک قدرتی بحری پل ہے، احسن اقبال کا پی میک 2025 کی افتتاحی تقریب سے خطاب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے