کراچی کا نیا ای چالان سسٹم: ٹریفک پولیس کی کمائی پر بریک لگ گیا

کراچی شہر کے ٹریفک اہلکار برسوں سے دھوپ، دھوئیں اور ٹریفک کے شور کے ساتھ جوجھتے آئے ہیں، مگر ان کے لیے ڈیوٹی کا مطلب صرف چالان کاٹنا نہیں تھا۔ سڑک کنارے ہونے والے "معاملات” نے ان کی جیبوں کو بھی کچھ نہ کچھ سہارا دیا ہوا تھا۔ اب لگتا ہے کہ یہ سہارا چھننے والا ہے۔

کراچی میں نیا ای چالان سسٹم متعارف ہونے کے بعد، ٹریفک پولیس اہلکاروں سے موقع پر چالان کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔ اس تبدیلی نے نہ صرف ان کی روزمرہ آمدن پر اثر ڈالا ہے بلکہ کئی کے لیے یہ “اضافی کمائی” کا دروازہ بند ہونے کے مترادف ہے۔

27 اکتوبر کو سسٹم کے آغاز کے بعد، مختلف محکموں میں تبادلوں کی شرح بڑھ گئی۔ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس پیر محمد شاہ کے مطابق، کئی اہلکار اب ایسے محکموں میں جانے کے خواہش مند ہیں جہاں “روایتی نظام” اب بھی کسی نہ کسی شکل میں باقی ہے۔ تاہم، آئی جی سندھ نے تمام تبادلوں پر تاحکمِ ثانی پابندی لگا دی ہے۔

کئی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ پہلے افسران کی جانب سے “امیدیں” ہوتی تھیں جنہیں پورا کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا، لیکن اب ان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ ایک اہلکار نے بتایا، “ای چالان اچھا قدم ہے، لیکن اس نے محکمے کے اندرونی نظام کو ہلا دیا ہے۔ اب ہماری آمدن صرف دکانداروں یا ریڑھی والوں تک محدود رہ گئی ہے۔”

ڈی آئی جی شاہ نے تسلیم کیا کہ ماضی میں رشوت عام تھی، مگر ان کے مطابق اب ڈیجیٹل سسٹم آنے کے بعد یہ رجحان کم ہو گیا ہے۔ تاہم، کچھ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ نظام میں ابھی بھی گنجائش باقی ہے۔

نیو کراچی کے ایک افسر نے بتایا، “ہم اب شہریوں کو چالان کا ڈر نہیں دکھا سکتے، مگر اب بھی پیسے کمانے کے دوسرے راستے ہیں۔ مثلاً سیکشن 341 یا 188 کے تحت معمولی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔”

انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے کیسز میں اکثر شہری عدالت کے چکر اور جرمانے سے بچنے کے لیے “آف دی ریکارڈ” معاملہ طے کر لیتے ہیں، جس میں ایک ہزار سے دس ہزار روپے تک کی رقم ادا کر دی جاتی ہے۔

کچھ اہلکاروں کے لیے یہ تبدیلی دلچسپ بھی ہے۔ ناظم آباد کے ایک سپاہی نے ہنستے ہوئے کہا، “اب لوگ جانیں گے اصل چالان کیا ہوتا ہے۔ پہلے ہم سو دو سو لے کر چھوڑ دیتے تھے، اب دیکھتے ہیں کیمرے سے کیسے بچیں گے۔”

دوسری جانب، کارساز فلائی اوور کے قریب موجود ایک اہلکار نے اس نظام کو خوش آئند قرار دیا۔ “رشوت کا زیادہ حصہ تو بڑے افسروں کو جاتا تھا، ہمیں تو صرف بددعائیں ملتی تھیں۔ اب کم از کم اس سے نجات تو ملی۔”

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ کانسٹیبلز کے لیے چالان کمیشن 9 ہزار روپے مقرر تھا، مگر ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا تھا۔ “پچھلے مہینے ڈی آئی جی ٹریفک کی کوشش سے ہمیں 5 ہزار روپے اکاؤنٹ میں ملے، باقی دو ہزار کہاں گئے، شاید کسی افسر کو زیادہ ضرورت تھی۔”

اب شہر کی سڑکوں پر ٹریفک پولیس کی موجودگی کم دکھائی دیتی ہے۔ موسمیات سے نپی چورنگی تک کیے گئے سروے میں ایک بھی اہلکار ڈیوٹی پر نظر نہیں آیا، حالانکہ بی آر ٹی کی تعمیر نے سڑک کو تنگ کر رکھا ہے۔ شارع فیصل پر صرف ایک سپاہی میری ٹائم میوزیم کے قریب موجود تھا۔

فی الحال، کراچی کا ای چالان نظام صرف شہریوں کے لیے نہیں بلکہ خود پولیس کے لیے بھی ایک امتحان بن گیا ہے  جہاں ہر افسر اپنی کھوئی ہوئی "اختیارات کی دنیا” کو یاد کر رہا ہے۔

More From Author

وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کا گوگل کروم بُک فیکٹری کے قیام کی بھرپور حمایت کا اعلان

پاکستان میں سال 2025 کا سب سے روشن اور بڑا سپر مون “بیور مون” دو راتوں تک دکھائی دے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے