ڈھاکا – بنگلہ دیش کے برآمدی شعبے کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب حضرت شاہ جلال انٹرنیشنل ایئرپورٹ (ایچ ایس آئی اے) کے کارگو ولیج میں لگنے والی خوفناک آگ نے اربوں ٹکوں کی مالیت کا سامان راکھ میں بدل دیا۔ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف بنگلہ دیش (EAB) کے مطابق اس سانحے سے مجموعی نقصان کا تخمینہ ایک ارب ڈالر تک لگایا جا رہا ہے۔
ڈھاکا میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ای اے بی کے صدر محمد حاتم نے کہا کہ یہ واقعہ ملک کی مینوفیکچرنگ اور برآمدی صنعتوں کے لیے ایک شدید دھچکا ہے، جس سے تیار ملبوسات (RMG)، دواسازی، منجمد خوراک اور زرعی مصنوعات کے برآمدی آرڈرز بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
محمد حاتم کا کہنا تھا، “یہ حادثہ دراصل ہمارے تجارتی انفراسٹرکچر کے ایک نہایت حساس حصے میں فائر سیفٹی اور ڈیٹیکشن سسٹم کی ناکامی کو بے نقاب کرتا ہے۔ نقصان صرف جلی ہوئی اشیاء کا نہیں بلکہ ایک سلسلہ وار اثر ہے جو پیداوار، برآمدات اور مستقبل کے آرڈرز کو متاثر کرے گا۔”
انہوں نے وضاحت کی کہ براہِ راست جلے ہوئے مال سے ہونے والا نقصان تو ایک پہلو ہے، مگر زیادہ بڑا نقصان اس خام مال کے ضائع ہونے سے ہوگا جس سے تیار مصنوعات بننی تھیں۔
اسی موقع پر بنگلہ دیش ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (BTMA) کے صدر شوقات عزیز رسل نے اس آگ کو “ایک گہری سازش” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا ہے جب بنگلہ دیش نے امریکہ کے ساتھ نئے ٹیرف معاہدے کے بعد عالمی تجارت میں اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔ کچھ سیاسی اور جغرافیائی طاقتیں پسِ پردہ ملک کے برآمدی نظام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔”
ای اے بی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کارگو ٹرمینلز، بندرگاہوں اور دیگر حساس برآمدی مقامات پر سیکیورٹی سخت کی جائے، کیونکہ اس نوعیت کے واقعات خریداروں کے اعتماد کو متزلزل کر سکتے ہیں اور بین الاقوامی تجارتی تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
حاتم نے خبردار کیا، “یہ آگ صرف سامان نہیں جلا گئی، بلکہ اعتماد کو بھی خاکستر کر گئی۔ اگر عالمی خریداروں نے ہمارے نظام پر سے بھروسہ اٹھا لیا تو نقصان صرف مالی نہیں بلکہ ساکھ کا بھی ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کی شفاف اور جامع تحقیقات ناگزیر ہیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔ “ہم اس غفلت کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ احتساب ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ہم خریداروں کا اعتماد دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔”
کارگو ولیج سے مختلف صنعتوں کے برآمد کنندگان وہ اشیاء بھیجتے ہیں جن میں اسپئیر پارٹس، خام مال، ادویات، پھل اور سبزیاں شامل ہیں۔ حاتم نے بتایا کہ تاخیر کی صورت میں یہ ناصرف خراب ہو سکتی ہیں بلکہ فارماسیوٹیکل سپلائی چین بھی متاثر ہو گی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ حالیہ عرصے میں اشولیہ، میرپور، چٹاگانگ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور انسیپٹا فارماسیوٹیکلز میں بھی آگ کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ “اب جب کہ ایئرپورٹ جیسے حساس علاقے میں ایسا واقعہ پیش آیا ہے، ہماری تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔”
حاتم نے آخر میں کہا، “یہ صرف ایک آگ نہیں تھی یہ ہمارے معاشی وقار پر حملہ تھا۔ اگر غیر ملکی خریداروں نے ہمارے سسٹم پر اعتماد کھو دیا تو اس کے اثرات اس آگ سے کہیں زیادہ تباہ کن ہوں گے۔”