ٹرمپ کا منصوبہ: ایچ-ون بی ویزوں پر سالانہ ایک لاکھ ڈالر فیس، صنعت میں تشویش کی لہر

واشنگٹن – ٹرمپ انتظامیہ نے غیر ملکی ورکرز کو ملازمت دینے والی کمپنیوں کے لیے ایچ-ون بی ویزہ پروگرام پر سالانہ ایک لاکھ ڈالر کی بھاری فیس عائد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جسے ماہرین ٹیکنالوجی کی صنعت کے لیے ایک بڑے جھٹکے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

امریکہ کے وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹ نِک نے جمعے کو اس پالیسی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مقصد امریکی کمپنیوں کو مجبور کرنا ہے کہ وہ بیرونِ ملک سے ورکرز لانے کے بجائے مقامی گریجویٹس کو ترجیح دیں۔ ان کے مطابق: "اگر آپ کسی کو ٹرین کرنا چاہتے ہیں تو امریکی گریجویٹ کو ٹرین کریں، باہر سے لوگوں کو لا کر ہماری نوکریاں مت چھینیں۔” یہ بیان ٹرمپ کے دوبارہ صدارت سنبھالنے کے بعد امیگریشن پر سخت اقدامات کے تسلسل کا حصہ ہے۔

ٹیک انڈسٹری میں بے چینی

یہ تجویز ایچ-ون بی ویزہ سسٹم کی سب سے بڑی تبدیلی سمجھی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام اجرتیں کم کرتا اور امریکی کارکنوں کو پیچھے دھکیلتا ہے، جبکہ حامیوں کا مؤقف ہے کہ یہ سسٹم سائنسی، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبوں میں مہارت کی کمی پوری کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے سابق اتحادی اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے بھی اس نظام کو برقرار رکھنے کی حمایت کی ہے۔

پیش کی گئی فیس تین سالہ ویزہ مدت کے ہر سال پر لاگو ہوگی، جس سے کمپنیوں پر لاکھوں ڈالر کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان چھوٹی ٹیک کمپنیوں اور اسٹارٹ اپس کو ہوگا جو پہلے ہی عالمی سطح پر چین کے ساتھ مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں مقابلہ کر رہی ہیں۔

ای مارکیٹر کے تجزیہ کار جیریمی گولڈ مین کے مطابق: "واشنگٹن کو قلیل مدت میں زیادہ ریونیو تو مل سکتا ہے، لیکن طویل مدت میں یہ قدم امریکی جدت کو کمزور کر دے گا۔”

بھارت اور چین سب سے زیادہ متاثر

اعدادوشمار کے مطابق پچھلے سال منظور شدہ ایچ-ون بی ویزوں میں 71 فیصد بھارتی شہری تھے جبکہ تقریباً 12 فیصد کا تعلق چین سے تھا۔ 2025 کی پہلی ششماہی میں صرف ایمیزون اور اے ڈبلیو ایس نے 12 ہزار سے زائد ویزے حاصل کیے، جبکہ مائیکروسافٹ اور میٹا نے پانچ ہزار سے زیادہ۔

فیصلے کے اعلان کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں بھی ہلچل دیکھنے کو ملی۔ آئی ٹی سروس فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں جیسے کوگنیزنٹ، انفوسس اور وپرو کے شیئرز میں دو سے پانچ فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

قانونی پہلو اور سوالات

ناقدین اس بات پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا وائٹ ہاؤس کو اتنی بھاری فیس عائد کرنے کا اختیار حاصل بھی ہے یا نہیں۔ امیگریشن کونسل کے پالیسی ڈائریکٹر ایرون رائخلن کے مطابق: "کانگریس نے صرف اتنے فیس مقرر کرنے کی اجازت دی ہے جو پروسیسنگ کے اخراجات پورے کرے۔ اس سے زیادہ وصولی غیر قانونی ہو سکتی ہے۔”

فی الحال ایچ-ون بی ویزہ لاٹری میں داخلے کی فیس انتہائی معمولی ہے اور کامیاب درخواستوں پر کمپنیوں کو چند ہزار ڈالر دینے پڑتے ہیں۔ یہ ویزے عام طور پر تین سے چھ سال تک کے لیے ہوتے ہیں اور زیادہ تر اخراجات کمپنیوں کو ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔

امیگریشن پالیسی میں نئی پیش رفت

یہ فیس تجویز ٹرمپ انتظامیہ کے وسیع تر امیگریشن ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اسی روز صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر بھی جاری کیا جس کے تحت "گولڈ کارڈ” کا اجراء کیا گیا ہے، جو ایک ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے افراد کو مستقل رہائش کا راستہ فراہم کرتا ہے۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے امریکی نوکریوں کا تحفظ ہوگا، تاہم ناقدین کے خیال میں یہ پالیسیاں امریکہ کی مسابقت اور اختراعی صلاحیت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، جو طویل عرصے سے امریکی معیشت کی بنیاد رہی ہیں۔

More From Author

ماہرین کی کراچی کے قدرتی آبی راستوں کے تحفظ کی فوری اپیل

ایف بی آر کا سوشل میڈیا پر نمود و نمائش کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے