کینبرا — آسٹریلیا نے اپنے اسکلڈ ورکر ویزا پروگرام میں 2025 کے لیے بڑی اصلاحات کا اعلان کیا ہے، جن کا مقصد ہنرمند غیرملکی افراد کے لیے امیگریشن کے عمل کو تیز، شفاف اور آسان بنانا ہے تاکہ وہ ملک کی افرادی قوت میں اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کر سکیں۔
یہ اقدام ملک میں بڑھتی ہوئی افرادی قلت کے پیشِ نظر کیا گیا ہے، خاص طور پر صحت، تعمیرات، آئی ٹی اور انجینئرنگ کے شعبوں میں جہاں تربیت یافتہ افرادی قوت کی شدید ضرورت ہے۔ آسٹریلوی حکام کے مطابق، نیا نظام دنیا بھر کے ماہرین کے لیے ملک کو ایک زیادہ پرکشش اور قابلِ رسائی منزل بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
نئے ویزا فریم ورک کے تحت درخواستوں کی پراسیسنگ کے اوقات میں نمایاں کمی کی جا رہی ہے جبکہ آن لائن اپلیکیشن سسٹم کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔ حکومت نے یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ اسپانسرشپ کے لیے آجرین کو زیادہ سہولت اور لچک فراہم کی جائے گی تاکہ وہ بیرونِ ملک سے ہنرمند افراد کو بھرتی کر سکیں۔
محکمہ داخلہ کے مطابق، اسکلڈ مائیگریشن آکیوپیشن لسٹ میں شامل پیشوں کو ترجیح دی جائے گی تاکہ ایسے شعبوں میں جہاں فوری ضرورت ہے، مہارت رکھنے والے افراد کو تیزی سے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ اس اقدام سے نہ صرف آجرین کو افرادی قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ امیدواروں کو روزگار کے زیادہ متوقع اور منظم مواقع بھی میسر آئیں گے۔
اہلیت کے معیار کے لحاظ سے درخواست دہندگان کی عمر 45 سال سے کم ہونی چاہیے، انگریزی زبان میں مہارت ثابت کرنا لازم ہوگا، اور متعلقہ شعبے کی اسکل اسیسمنٹ پیش کرنا ضروری ہے۔ تعلیمی قابلیت، تجربے اور زبان کی اہلیت پر مبنی پوائنٹس سسٹم برقرار رکھا گیا ہے، جس میں زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والوں کے انتخاب کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔
2025 کے نئے نظام میں ایک بڑی بہتری اسکل سلیکٹ (SkillSelect) کے عمل میں کی گئی ہے، جس کے ذریعے امیدوار پہلے ایکسپریشن آف انٹرسٹ (EOI) جمع کرائیں گے۔ منتخب ہونے کے بعد وہ اپنی مکمل دستاویزات کے ساتھ باضابطہ درخواست دے سکیں گے۔ نئے نظام کے تحت ویزا کی منظوری چند مہینوں میں ممکن ہو سکے گی — جو پہلے کے طویل انتظار کے عمل سے ایک نمایاں تبدیلی ہے۔
ترجیحی شعبوں جیسے عمر رسیدہ افراد کی نگہداشت، آئی ٹی، اور انفراسٹرکچر میں کام کرنے والے آجرین کو بھی نئے اسپانسرشپ مواقع دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ بیرونِ ملک سے براہِ راست ہنرمند افراد بھرتی کر سکیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل ایک “ون-ون سیچویشن” پیدا کرے گا جہاں آجرین کو درکار افرادی قوت ملے گی اور ہنرمند افراد کو بہتر روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔
امیگریشن ماہرین نے ان اصلاحات کا خیرمقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے، خود کو عالمی سطح پر ہنرمند افراد کے لیے ایک مضبوط مرکز کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
ان نئی پالیسیوں کے ساتھ، آسٹریلیا نہ صرف روزگار اور طرزِ زندگی کے اعتبار سے ایک پُرکشش منزل بن رہا ہے بلکہ ایک جدید، باصلاحیت اور جدت پسند معاشرے کے طور پر اپنی پہچان مضبوط کر رہا ہے — جو دنیا بھر کے ہنرمند افراد کو تیز تر اور منصفانہ مواقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ "ڈاؤن انڈر” میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکیں۔