شنگھائی — آٹھواں “چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو (CIIE)” ایک بار پھر عالمی تجارت میں شمولیت اور مساوات کے فروغ کی علامت بن کر سامنے آیا ہے، جہاں ترقی پذیر ممالک کو دنیا کی سب سے بڑی صارف منڈی میں داخل ہونے کے نئے مواقع میسر آ رہے ہیں۔
اس سال ایکسپو میں 37 غریب ترین ممالک (LDCs) کی 163 کمپنیوں نے شرکت کی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 23.5 فیصد زیادہ ہے۔ افریقی ممالک کی شرکت میں 80 فیصد اور “بیلٹ اینڈ روڈ” ممالک کی نمائندگی میں 23 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
چین کی جانب سے ان تمام غریب ممالک کے لیے “زیرو ٹیرف پالیسی” جو دسمبر 2024 سے نافذ العمل ہے — کے تحت اب متعدد نمائش کنندگان براہِ راست چینی مارکیٹ تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت نے شرکت کو مزید آسان بنانے کے لیے مفت اسٹالز، لاجسٹک سبسڈی، اور خصوصی کسٹمز سہولیات بھی فراہم کی ہیں۔
تنزانیہ کی ایواکاڈو برآمد کنندہ جولیانا موالیییپلو نے اس موقع کو “بین الاقوامی منڈی تک پہنچنے کا پل” قرار دیا، اور کہا کہ “چین کی بڑی طلب اور مستحکم شراکت داری چھوٹے افریقی کسانوں کے لیے مستقبل بدل سکتی ہے۔”
افریقی پویلین نے اس سال زبردست توجہ حاصل کی، جہاں زیمبیا کا شہد، برونڈی کی کافی، اور زمبابوے کے خوشبودار تیل چینی صارفین کو خاصے پسند آئے۔ ایتھوپیا کی کافی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے — جو چند کنٹینرز سے بڑھ کر اب 2000 ٹن سالانہ تک جا پہنچی ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کی شمولیت بھی نمایاں رہی، جہاں برازیل، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور پیرو نے اپنی مخصوص مصنوعات متعارف کرائیں۔ کولمبیا — جو اس سال کا “مہمانِ خصوصی” اور نیا بیلٹ اینڈ روڈ رکن ہے — نے اپنی شرکت چار گنا بڑھا دی، اور ایواکاڈو، چاکلیٹ اور ہنرمندوں کی بنائی ہوئی اشیاء چینی خریداروں کو پیش کیں۔
ماہرین کے مطابق یہ ایکسپو چین کے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ جنوبی ممالک کے درمیان تعاون (South-South Cooperation) اور منصفانہ عالمی تجارت کے فروغ میں عملی کردار ادا کر رہا ہے۔
ریبیکا گرینسپین، سیکریٹری جنرل یو این سی ٹی اے ڈی، نے کہا:
“CIIE نے ترقی پذیر ممالک کے لیے نئی راہیں کھولی ہیں یہاں مارکیٹ تک رسائی حقیقت میں مارکیٹ میں داخلے کا موقع بن جاتی ہے۔”
نمائش کے ساتھ ساتھ چین نے “ایکسپورٹ ٹو چائنا” نامی نیا منصوبہ بھی شروع کیا ہے، جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کو عالمی سپلائی چین کا حصہ بنانا، تجارتی روابط مضبوط کرنا، اور مواقع کو مشترکہ خوشحالی میں بدلنا ہے۔
پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لیے شنگھائی سے واضح پیغام یہی ہے: چین کی کھلی منڈی صرف ایک موقع نہیں، بلکہ پائیدار ترقی کا حقیقی شراکت دار ہے۔