یو ایس ایڈ پروگرامز کی جزوی بحالی: پاک امریکہ ترقیاتی تعلقات میں برف پگھلنے کا اشارہ

اسلام آباد: ایک محتاط مگر اہم پیش رفت کے طور پر، امریکہ نے پاکستان میں اپنے چند یو ایس ایڈ ترقیاتی پروگرامز کے لیے فنڈنگ دوبارہ شروع کر دی ہے۔ یہ پیش رفت اس طویل جمود کے بعد سامنے آئی ہے جو رواں سال کے آغاز میں دونوں ممالک کے درمیان ترقیاتی تعاون کی راہ میں حائل ہو گیا تھا۔

وزارتِ اقتصادی امور کے معتبر ذرائع کے مطابق، دو اہم پروگرام — یو ایس نیڈ بیسڈ میرٹ اسکالرشپ پروگرام (فیز II) اور مرجڈ ایریاز گورننس پروگرام — کو نئی مالی امداد موصول ہو چکی ہے، اور ان کی فنڈنگ 2025 تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

یہ بحالی اُس ڈرامائی تعطل کے بعد سامنے آئی ہے جب فروری 2025 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے 845 ملین ڈالرز کی امداد معطل کر دی تھی۔ اس فیصلے نے نہ صرف حکومت سے حکومت کو دی جانے والی امداد (G2G) بلکہ ان تمام پروگراموں کو بھی متاثر کیا جو غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کے ذریعے چل رہے تھے — اور یوں پاکستان کے ترقیاتی شعبے میں خاصی تشویش کی لہر دوڑ گئی۔


محتاط امید کی واپسی

اگرچہ بحال ہونے والی فنڈنگ پہلے سے طے شدہ امداد کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے، مگر اس اقدام کو ایک علامتی اشارے کے طور پر سراہا جا رہا ہے — ایک اشارہ کہ شاید دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی بحالی کا سفر دوبارہ شروع ہو رہا ہے۔

اس سلسلے میں امریکی سفارتخانے اور پاکستان کی وزارتِ اقتصادی امور کے اعلیٰ حکام کے درمیان پسِ پردہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کا مقصد فنڈز کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنانا اور نگرانی کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ ذرائع کے مطابق، امریکی حکام نے خاص طور پر ان فنڈز کی مانیٹرنگ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جو براہِ راست این جی اوز کو دیے جاتے ہیں — یہی مسئلہ مکمل بحالی میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ بھی بنا۔

تاہم، ان دو پروگرامز کی بحالی کو پیش رفت کا مثبت اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ اسکالرشپ پروگرام کو دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی تعاون کی کامیاب ترین مثالوں میں شمار کیا جاتا ہے، جس نے ہزاروں مستحق طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کیے۔ دوسری جانب، مرجڈ ایریاز گورننس پروگرام قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد استحکام کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔


کیا یہ حکمتِ عملی کی تبدیلی ہے؟

ایک حالیہ صحافتی سوال کے جواب میں، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے تصدیق کی کہ واشنگٹن اپنے غیر ملکی امدادی پروگرامز کو "دوبارہ منظم” کر رہا ہے، اور اب اس کی ترجیح "زندگی بچانے والے اقدامات” اور ایسے اسٹریٹجک سرمایہ کاریوں پر ہے جو "امریکی مفادات اور اس کے شراکت داروں” کو فائدہ دیں۔

ان کا بیان اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ امریکہ اب غیر مشروط امداد کے بجائے، اپنی خارجہ امداد کو سوچے سمجھے، مفاد پر مبنی سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔

اسلام آباد میں موجود ترقیاتی ماہرین اسے فروری میں کی گئی پابندیوں کے خاتمے کے بجائے ایک نیا زاویہ قرار دے رہے ہیں۔ ایک بین الاقوامی ڈونر ادارے کے سینئر اہلکار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
"یہ پاکستان کو چیک تھما دینے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک محدود لیکن باقاعدہ دوبارہ روابط کی شروعات ہے۔ واشنگٹن میں استحکام کی حمایت کا رجحان ضرور ہے — مگر شرائط کے ساتھ۔”


کیا مکمل بحالی ممکن ہے؟

اگرچہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، مگر ماحول اب بھی محتاط ہے۔ اطلاعات کے مطابق، واشنگٹن سخت آڈٹ سسٹم کی شرط پر زور دے رہا ہے، جبکہ اسلام آباد مقامی این جی اوز کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ آزادی چاہتا ہے۔

اگر دونوں جانب سے لچک دکھائی گئی اور ایک متوازن فریم ورک پر اتفاق ہو گیا، تو مکمل یو ایس ایڈ پروگرامز کی بحالی نہ صرف ممکن ہو سکتی ہے بلکہ یہ پاک امریکہ تعلقات میں ایک نیا اور مستحکم باب بھی ثابت ہو سکتی ہے — خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا میں سفارتی اتحاد بدل رہے ہیں اور پاکستان خود بھی اندرونی طور پر سیاسی اتھل پتھل سے گزر رہا ہے۔


آخری بات

فی الوقت، فنڈنگ کی جزوی بحالی ایک امید کی کرن ہے — اور اس امر کی یاد دہانی بھی کہ تعلقات کتنے ہی سرد کیوں نہ ہوں، ترقیاتی سفارتکاری ہمیشہ ایک ایسا راستہ رہتی ہے جہاں بات چیت اور شراکت داری کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

More From Author

ٹرمپ اور پی ٹی آئی: غلط امیدیں اور سیاسی حقیقتیں

ایرانی صدر مسعود پزیشکیان 26 جولائی کو پاکستان کا دورہ کریں گے، دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی علامت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے