نیویارک: پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ افغانستان ہمیشہ سیاسی تنہائی اور عالمی برادری سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کابل کی عبوری حکومت پر زور دیا کہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات کرے۔
تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) کے افغانستان پر رابطہ گروپ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ افغانستان میں دو درجن سے زائد شدت پسند تنظیمیں موجود ہیں جو خطے کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، مجید بریگیڈ اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کے نام لیے اور کہا کہ یہ گروہ القاعدہ کے ساتھ مل کر علاقائی امن کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا، "ہمارے قانون نافذ کرنے والے اہلکار اور شہری اب بھی افغانستان سے پھوٹنے والی دہشت گردی کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔” انہوں نے یاد دلایا کہ رواں ماہ کے آغاز میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں بارہ پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شدت پسند تنظیمیں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے پروپیگنڈا اور تشدد کو ہوا دے رہی ہیں، جو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں جاری سیاسی جمود اور عالمی تنہائی اب مزید نہیں چل سکتی۔ او آئی سی اور رکن ممالک کو چاہیے کہ ایسے اقدامات کریں جو افغانستان کو بحران سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوں۔ انہوں نے ایک جامع حکمتِ عملی کی تجویز دی جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد، معاشی استحکام اور سیاسی روابط شامل ہوں۔ ان کے مطابق افغانستان کی تباہ حال معیشت کو سہارا دینا، بینکاری نظام کو بحال کرنا اور تجارت و علاقائی رابطوں کے منصوبوں کو آگے بڑھانا روزگار پیدا کرے گا اور عوام کو غربت سے نکالنے میں مدد دے گا۔
انہوں نے طالبان کے ساتھ مسلسل اور سنجیدہ مکالمے پر زور دیا اور اقوامِ متحدہ کے ان منصوبوں کی حمایت کی جو افغان کسانوں کو پوست کی کاشت کے بجائے متبادل ذرائع آمدن فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ خواتین اور بچیوں پر عائد پابندیاں ختم کریں، جنہیں انہوں نے بلاجواز، غیر اسلامی اور مسلم معاشرے کی اقدار کے منافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے بعد افغانستان میں جو جزوی امن قائم ہوا ہے، یہ وقت ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی باعزت اور محفوظ واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ ایک ماہرین کا ورکنگ گروپ قائم کریں جو عملی روڈمیپ تیار کرے اور دہشت گردی، معیشت، انسانی حقوق اور حکمرانی جیسے مسائل پر متوازن اور مرحلہ وار اقدامات تجویز کرے۔
اپنی تقریر کے اختتام پر اسحاق ڈار نے یاد دلایا کہ پاکستان کا مؤقف افغانستان میں امن و خوشحالی کی حقیقی خواہش پر مبنی ہے، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب طالبان حکام باہمی احترام، خلوص اور سیاسی عزم کا مظاہرہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ افغانستان کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد نسبتاً سکون کے مرحلے میں داخل ہوا ہے لیکن پابندیاں، دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ، غربت، بے روزگاری، انسانی حقوق کے خدشات اور غیر تسلیم شدہ حکومت اب بھی اسے عالمی برادری کے حاشیے پر دھکیل رہی ہیں۔